”پاک فوج
میں بڑا ہنگامہ ”
جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کا کیس پاکستانی حکومت کے ساتھ ساتھ پاک فوج کیلئے بڑی آزمائش بلکہ بڑا چیلنج بن گیا ہے کیونکہ اس کیس کے تانے بانے نہ صرف دور دور تک ہیں بلکہ اس کیس نے پاک فوج کی جڑیں بھی ہلا دی ہیں ، کیس میں جیسے جیسے تحقیقات آگے بڑھ رہی ہیں خود پاک فوج کے بڑے بڑے جنرل اور افسر اس کیس کے زیر عتاب آ رہے ہیں اور اب تک پاک فوج کے درجنوں حاضر سروس بریگیڈئیر اور جنرلز کو تحویل میں لے کر غائب کر دیا گیا ہے ، جن کا پچھلے کئی دنوں سے کوئی پتہ نہیں ہے جبکہ ان کے اہل خانہ بڑی پریشانی سے دوچار ہیں ۔ذرائع کے مطابق اب تک ایک درجن سے زائد بریگیڈئیرز اور جنرلز کو حراست میں لیا گیا ہے ، جن کے اہلخانہ نے ”پاکستان نیوز” سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کا پچھلے کئی روز سے ان افسران سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی ان کے متعلق کوئی معلومات ہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہیں ، دوسری جانب اب تک کی تحقیقات اور منظر نامے نے ثابت کیا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ فیض کے افغانستان کی طالبان حکومت سے بھی گہرے مراسم ہیں شاید اسی لیے وہ طالبان حکومت کے برسراقتدار آتے ہی چائے پینے صبح سویرے کابل جا پہنچے تھے جس کا بھارت اور امریکہ نے بہت برُا منایا تھا اور اس وقت کے آرمی چیف نے جنرل فیض کو فوری طور پر آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹا دیا تھا ، اس اچانک برطرفی سے اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان بہت ناراض تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ جنرل فیض آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹیں ، اسی وجہ سے عمران خان نے جنرل فیض کو ہٹانے کی آرمی چیف کی سمری پر کئی ہفتے تک دستخط نہیں کیے تھے جس پر میڈیا میں کافی چہ میگوئیاں بھی ہوئی تھیں ۔ذرائع کے مطابق افغان طالبان اور طالبان حکومت پاک فوج کی جانب سے جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کیے جانے اور ان کیخلاف کارروائی سے سخت ناراض ہے اور اس کا بدلہ لینے کے لیے خوارج کی بڑی فورس پاکستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں بھیج دی گئی ہے جبکہ تاریخ میں پہلی مرتبہ طالبان حکومت نے پاکستان کی بجائے بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے ، افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے دبئی میں بھارتی ہم منصب سے ملاقات کی جس کو پاکستان کیلئے خطرے کی گھنٹی قرار دیا جا رہا ہے ، بھارتی سیکرٹری خارجہ وکرم مصری اور طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کے درمیان دبئی میں ہونے والی ملاقات نے افغان قیادت کے ساتھ اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے بھارت کے ارادوں کی تصدیق کر دی ہے۔بھارت پچھلے ایک سال کے دوران بتدریج طالبان کے ساتھ تعلقات کو بڑھا رہا ہے لیکن اس تازہ ترین ملاقات نے اپنی نوعیت کی پہلی اعلیٰ سطحی مصروفیت کی نشاندہی کی۔دوسری طرف طالبان حکومت کی پاکستان سے دوری کے بعد چین کی دوری نے بھی خطرے کی گھنٹے بجا دی ہے ،پاکستان کی جانب سے افغانستان میں ڈرون اور فوجی کارروائیوں کے دوران چین نے پاکستانی بندرہ گاہ گوادر کی بجائے ایران کی بندرگاہ کا استعمال کرتے ہوئے افغانستان سامان کی ترسیل کو ممکن بنایا ہے ، ذرائع کے مطابق اس اہم موڑ پر چین کا پاکستان کو بائی پاس کرنا بھی نازک صورتحال کی طرف بڑی نشاندہی ہے ۔جنرل فیض کیخلاف کارروائی پاک فوج کے ساتھ پاکستانی حکومت کو بھی بہت مہنگی پڑ رہی ہے، اس وقت دو اچھے ہمسائے ممالک پاکستان سے منہ موڑ رہے ہیں جن میں افغانستان اور چین شامل ہیں جبکہ پاکستانی حکومت عالمی سطح پر یہ نقصان برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے جبکہ گزشتہ دنوں انکشاف ہوا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے اپنا چہرہ چھپاتے ہوئے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے گھر میں اہم بیٹھک کا اہتمام کیا ہے جس میں خفیہ طور پر کچھ باتوں پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے ،ذرائع کے مطابق جنرل فیض حمید کا اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے گھر آنا اس بات کا بھی پیش خیمہ ہے کہ شاید خان کی رہائی کیلئے راہ کو ہموار کیا جا رہا ہے اور حالات کو معمول پر لانے کے لیے شاید پاک فوج اور حکومت جنرل فیض کو ہی استعمال میں لا رہی ہے کیونکہ حالات پاک فوج اور حکومت کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں عالمی سطح پر بھارت ، افغانستان اور چین کا ٹرائیکا پاکستان کے لیے کسی صورت بھی سازگار ثابت نہیں ہوگا جبکہ پاک فوج میں اتنی بڑی تعداد میں افسران کا فیض حمید کا حمایتی ہونا بھی خطرے کا پیش خیمہ ہے کیونکہ پاک فوج میں تقسیم ملک کی جڑیں ہلا دے گی اور خدانخواستہ اس صورتحال کوئی انقلاب جنم لے سکتا ہے جس کا عملی مظاہرہ حال ہی میں بنگلہ دیش میں دیکھنے میں آیا ہے ، اس وقت پاک فوج اور حکومت کو چاہئے کہ وہ” بھڑوں” کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کی غلطی نہ کرے کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں کیونکہ حکومت اور فوج اس وقت جنرل فیض کو ٹارگٹ کر تے ہوئے ،دبائو ڈال کر اپنے مرضی کے بیانات لینا چاہتی ہے تاکہ عمران خان اور پی ٹی آئی کیخلاف کیس کو اور زیادہ مضبوط کیا جا سکے ۔اس موقع پر حکومت کو چاہئے کہ وہ جنرل فیض کے معاملے میں تحمل اور برُد باری کا مظاہرہ کرے ورنہ بھارت اس کا بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
٭٭٭