جوہری معاہدہ اور ایران، امریکہ مذاکرات!!!

0
62

تہران اور واشنگٹن نے 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے سفارتی کوششیں شروع کیں جو ایک سال تک جاری رہیں اور جس میں یورپی حکومتوں نے اپنی شٹل ڈپلومیسی کے ذریعے تہران اور واشنگٹن دونوں فریقین کو معاہدے پر عمل درآمد میں واپس لانے کے لیے درکار تکنیکی اقدامات پر متفق بھی ہوئے مگر ایران اور امریکہ کے مابین نیوکلیئر ڈیل کی بحالی کے لیے پیش رفت نہ ہوسکی۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق، اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ٹرمپ کے ساتھ ایران کے جوہری پروگرام سے نمٹنے کے لیے نام نہاد “لیبیا ماڈل” پر تبادلہ خیال کیا ہے، یعنی اسرائیل اور امریکہ، ایران کی تمام جوہری صلاحیتوں کو مکمل طور پر ختم کرنے اور ایران کے نیو کلئیر ہتھیاروں کی مکمل حوالگی کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس تہران اس بات کی مخالفت کرتا رہا ہے کہ جوہری علم اور کئی دہائیوں سے حاصل ہونے والی ترقی سے وہ کیسے دستبردار ہوسکتا ہے۔ ایران اور امریکہ کے مابین 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے امکانات ایک دفعہ دوبارہ پیدا ہوگئے ہیں۔ یہ سب امریکہ اور ایران کے مابین ہونے والی تازہ سفارتکاری کے نتیجے میں ہورہا ہے۔ امریکہ اور ایران کے مندوبین کے بارہ اپریل بروز ہفتہ کو عمان کے دارالحکومت مسقط میں “بالواسطہ” جوہری مذاکرات ہوئے ہیں جس کے اختتام پر دونوں پارٹیوں نے اگلے ہفتے مزید مذاکرات کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ امریکی وفد کی سربراہی خصوصی ایلچی سٹیو وِٹ کوف نے کی جبکہ ایرانیوں کی قیادت وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کی۔ ان کے ساتھ ان کے نائب برائے سیاسی امور ماجد تخت روانچی، نائب برائے بین الاقوامی امور کاظم غریب آبادی اور وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل باغائی بھی تھے۔ اِیران جوہری معاہدہ، جسے باضابطہ طور پر جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (JCPOA) کے نام سے جانا جاتا ہے، جولائی 2015 میں ایران اور امریکہ سمیت کئی عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والا ایک تاریخی معاہدہ ہے۔ جس کے تحت جوہری پروگرام اور اس کی تنصیبات کو مزید وسیع بین الاقوامی معائنے کے لیے کھولنے کے عوض اِیران کو اربوں ڈالر مالیت کی پابندیوں میں ریلیف فراہم کیا جانا تھا۔ جنوری 2016 میں نافذ ہونے والا یہ معاہدہ، اِیران کے سویلین جوہری افزودگی کے پروگرام پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔ ایران کے ساتھ مذاکرات میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان (چین، فرانس، روس، برطانیہ، امریکہ) اور جرمنی جنہیں مجموعی طور پر P5+1 کہا جاتا ہے، شامل تھے جبکہ یورپی یونین نے بھی حصہ لیا۔ یاد رہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل نے اس معاہدے کی مخالفت کی تھی۔ P فائیو پلس ون، ایران کے جوہری پروگرام کو اس حد تک ختم کرنا چاہتے تھے کہ اگر تہران، جوہری ہتھیار بنانے کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے کم از کم ایک سال لگ جائے گا، جس سے عالمی طاقتوں کو جواب دینے کا وقت ملے گا۔ JCPOA مذاکرات کی طرف بڑھتے ہوئے، امریکی انٹیلی جنس حکام نے مندرجہ ذیل نکات پر قیاس آرائی کی جس میں پہلا، معاہدے کی عدم موجودگی میں، ایران چند مہینوں میں ہتھیار کے لیے کافی جوہری مواد تیار کر سکتا ہے۔ دوسرا، ایران کے جوہری ہتھیاروں کی حامل ریاست بننے کے اقدام سے خطہ ایک نئے بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔ تیسرا، اسرائیل نے عراق اور شام میں مشتبہ جوہری تنصیبات کے خلاف قبل از وقت فوجی کارروائی کی تھی اور وہ ممکنہ طور پر ایران کے خلاف بھی ایسا ہی کر سکتا ہے، جس کے ردِعمل میں شاید لبنان میں موجود حزب اللہ کی طرف سے انتقامی کارروائیوں یا خلیج فارس میں تیل کی نقل و حمل میں رکاوٹ پیدا ہوجائے۔ دوسری طرف، سعودی عرب نے بھی اس وقت یہ عندیہ دیا تھا کہ اگر ایران کامیابی سے ایٹمی دھماکہ کرتا ہے تو وہ بھی جوہری ہتھیار حاصل کرے گا۔ JCPOA کے تحت ایران نے بہت زیادہ افزودہ یورینیم یا پلوٹونیم تیار نہ کرنے پر اتفاق کیا جو جوہری ہتھیاروں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ فورڈو، نتنز، اور اراک کی سہولیات پر بشمول طبی اور صنعتی تحقیق کے صرف سویلین مقصد کے لیے کام کرنے کا وعدہ کیا۔ اس جوہری معاہدے کے تحت، یورپی یونین، اقوام متحدہ اور امریکہ سمیت تمام دستخط کنندگان نے ایران سے جوہری پابندیاں ہٹانے کا عہد کیا۔ تاہم، ایران پر بہت سی دوسری امریکی پابندیاں، جن میں سے کچھ 1979 کے یرغمالی بحران سے متعلق ہیں، نافذ العمل رہیں۔ اس کے علاوہ یہ پابندیاں، ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام، دہشت گرد گروپوں کی حمایت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے معاملات کا احاطہ کرتی ہیں۔ اگرچہ امریکہ نے تیل کی برآمدات پر سے پابندیاں ہٹانے کا عہد کیا، لیکن اس نے مالیاتی لین دین پر پابندیاں برقرار رکھیں، جنہوں نے ایران کی بین الاقوامی تجارت پر کافی حد تک منفی اثر ڈالا۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) نے 2016 کے اوائل میں تصدیق کی کہ ایران نے اپنے ابتدائی وعدوں کو پورا کیا ہے۔ جس کے جواب میں امریکہ، یورپی یونین، اور اقوام متحدہ نے اپنی پابندیوں کو منسوخ یا معطل کیں۔ اوباما اِنتظامیہ نے تیل کے شعبے پر ثانوی پابندیاں ہٹا دیں، جس سے ایران کو تیل کی برآمدات تقریبا اس سطح تک بڑھانے کی اجازت ملی جو پابندیوں سے پہلے تھی۔ امریکہ اور کئی یورپی ممالک نے ایران کے منجمد کیے گئے 100 بلین ڈالر کے اثاثوں کو بھی غیر منجمد کر دیا۔ تاہم، 2018 میں صدر ٹرمپ کی جانب سے امریکہ کو اِس معاہدے سے نکالنے اور بینکنگ اور تیل کی سخت پابندیوں کو بحال کرنے کے بعد سے یہ معاہدہ عملی طور پرختم ہوگیا کیونکہ صدر ٹرمپ کے مطابق یہ معاہدہ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور خطے میں اس کی پراکسی وار کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ نے مسقط مین ہونے والے ان مذاکرات کو “تعمیری ماحول اور باہمی احترام پر مبنی” قرار دیا ہے۔ اگرچہ ٹرمپ اور ان کے عہدیداروں نے اصرار کیا تھا کہ مذاکرات “براہ راست” اور “ایک ہی کمرے میں” ہوں گے جبکہ تہران نے زور دیا تھا کہ مذاکرات بالواسطہ ہوں گے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق، عمان کے وزیر خارجہ بدر بن حمد البوسیدی نے چیف ثالث کے طور پر کام کیا اور دونوں وفود کے درمیان پیغامات کے تبادلے کی ذمہ داری سرانجام دی جو کہ علیحدہ علیحدہ کمروں میں بیٹھے تھے۔ ایران نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بات چیت صرف اس کے جوہری پروگرام پر مرکوز ہوگی نہ کہ اس کی عسکری صلاحیتوں یا خطے میں اس کی اتحادیوں کی مزاحمت پراضافہ دیکھنے میں آیا ہے کیونکہ ایران، خطے میں شام میں بشارالاسد جیسے اپنے قریبی حلیف کو کھو چکا ہے جبکہ لبنان میں حزب اللہ کا نظم و نسق بھی کافی حد تک تباہ ہوچکا ہے۔ خطے میں تبدیل ہوتی ہوئی جیو پولیٹیکل صورتحال کے تناظر میں یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ایران اور امریکہ کے مابین 2015 کا جوہری معاہدہ اپنی اصلی شکل میں بحال ہوتا ہے خصوصا جس وقت امریکہ کے صدر ٹرمپ کی اپروچ یہ ہے کہ طاقت کے بل پوتے پر امن dictate کیا جائے۔ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال باالخصوص شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے، لبنان میں حزب اللہ اور غزہ میں حماس کی قیادت پر اسرائیلی وحشیانہ بمباری اور غزہ کی تباہی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں ایران پر دبائو میں خاصااضافہ دیکھنے کو نظر آرہا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here