عجب الیکشن کی غضب کہانی!! !

0
11
پیر مکرم الحق

2024ء میں ہونے والے انتخابات کو دو ہفتے ہونے کو ہیں لیکن پہلے ہونے والے الیکشن کی طرح معاملات آگے نہیں بڑھ رہے ہیں تو ہمیں پتہ تھا کہ کسی ایک جماعت کو سادہ اکثریت نہیں ملے گی اور چوں چوں کا مربہ بن جائیگا لیکن وہ بھی ابھی بن نہیں پا رہا ہے۔ میاں نوازشریف تو حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے وزیراعظم کی دوڑ سے الگ ہوگئے اور اپنا چھوٹا بھائی قربانی کیلئے پیش کردیا ہے حالانکہ ابھی قربانی کی عید بہت دور ہے اور پنجاب کو مریم نواز کے نسبتاً نوجوان کاندھوں پر ڈالنے کا تہیہ کرلیا ہے تاکہ وزیراعظم کو تربیت دینا شروع کردیں ،چچا کے وزیراعظم ہونے کا فائدہ تولیں نا! ادھر مولانا فضل الرحمان کی وہ حالت ہے کہ دیکھی نہیں جاتی ،ڈی آئی خان کی سیٹ تو گنوا بیٹھے ہیں لیکن جس کے ہاتھوں شکست کی تضحیک ہوئی ہے وہ تحریک انصاف کا ”جگا بدمعاش” ہے جو ڈیرہ اسماعیل خان کے ماتھے پر ایک کلنک کا ٹیکہ ہے اور دوران انتخابات وہ یہ دھمکی دے چکا ہے کہ میں اگر جیت کے آیا تو مولانا کیلئے ڈیرے میں رہنا ناممکن بنا دوں گا۔ مولانا نے بھی اپنا راستہ بنا رکھا تھا اسلئے وہ بلوچستان سے ایک نشست پر کامیاب ہوگئے ہیں تاکہ کہیں منہ چھپانے جیسے تو رہیں یہاں پر تو یہ جگا بدمعاش رہنے دیگا نہیں لیکن بانی تحریک جو اڈیالہ میں بیٹھ کر مولانا کے مزے لے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے گماشتوں سے کہا ہے کہ مولانا کو تحریک کی پناہ کی دعوت دیدیں حالانکہ تحریک کے کئی رہنما اس عمل کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے ہیں کیونکہ انہوں نے تو فتح کا جشن کھلے میدان میں اپنی خواتین ورکروں کے رقص دیکھتے ہیں اور انہیں ڈر ہے کہ مولانا کہیں مصطفیٰ قریشی بن کر راہ میں آکھڑے نہ ہوجائیں کہ یہ ”ناچ گانا نہیں ہوگا” کی بڑک نہ لگا دیں۔ ادھر اب کے سابق الیکشن میں حاضر سروس کمشنر راولپنڈی کا سویا ہوا ضمیر35سالہ ملازمت کے بعد اچانک جاگ گیا ہے کیونکہ وہ سو نہیں پائے تھے کئی راتوں سے تو انکے رت جگوں کی وجہ سے انکا ”ضمیر بھائی” جاگ گیا اور ”جٹ کی کھڑاک” انہوں نے کھڑکا دی اور سامنے لانے والوں کے سکرپٹ پر من وعن عمل کرتے ہوئے انہوں نے پنڈی کی تیرہ سیٹوں پر ہارنے والے قومی اسمبلی کی نشست کے تیرہ امیدوار جو ستر ہزار سے ہار رہے تھے ان سب کو جتوانے کا ناممکن کام کرنے کا انکشاف کردیا۔ جسکے نو(9) دن بعد جبکہ انکا ضمیر بیدار ہوگیا تو پہلے اپنی جان لینے کے متعلق فیصلے پر سوچ بچار کیا پھر اس فائل پر غور وفکر کے بعد ایک سوال اٹھایا یعنیQUERYکی کہ کیوں نہ عوام الناس کو آگاہ کریں اور جس کے بعد خود لٹکنے کے بجائے عوام کے سامنے یہ سوال لٹکا دیا کہ پنجاب کی باقی ساری ڈویژنوں کے کمشنر صاحبان میں سے ایک کا بھی ضمیر اس قابل نہیں تھا کہ جاگ جاتا یا وہ سارے بے ضمیر تھے صرف راولپنڈی کا کمشنر ہی باضمیر تھا اسکی یہ بھی وجہ تھی کہGHQبھی راولپنڈی میں ہے ہوسکتا ہے وہاں کے صاحبان نے ایک زبردست جھٹکا دیا ہو اور ضمیر اسکے بعد سو نہ سکا۔ ادھر تحریک انصاف نے بھی ایک نہیں کئی بونگیاں ماری ہیں کیونکہ ان بیچاروں کا دماغ آجکل اڈیالہ میں قید ہے تو پہلے انہوں نے اسلامی ملی اتحاد والوں میں ضم ہونے کا فیصلہ کیا تھا پھر وہاں دال نہیں گلی تو پھر سنی اتحاد والوں نے حامی بھرلی کیونکہ ملی اتحاد والے شیعہ مسلک کے ہیں اور سنی اتحاد نے کہا کہ اگر تحریک ضم ہوگئی تو تاثر یہ جائیگا کہ پاکستان میں ایک شیعہ مسلک کی جماعت نے ایک بھاری اکثریت حاصل کرلی ہے تو پھر مشرق وسطیٰ کے وہ ممالک جو سنی اتحاد کو خطیر رقوم چندہ میں دیتے ہیں وہ تو ہاتھ کھینچ لیں گے تم لوگوں کو کسی کھاتے میں چندہ دو، اس لئے انہوں نے بانی تحریک کو جیل میں پیغام بھیجا کہ ”ہم ہیں نا آپ ملی اتحاد میں ضم ہونے کا نہ سوچیں ہم ان سے بڑی سہولیات آپ کو دینگے اور ہمارا میدان آپ کے لئے حاضر ہے خوب ناچ گانا کیجئے ہم اپنے خواب گاہوں کی کھڑکیوں سے دیکھیں گے۔ایسا محسوس ہوتا ہے پاکستانی سیاست پر پاکستانی فلموں کے مرحوم مزاحیہ کرداروں نے قبضہ کرلیا ہے۔ ساری دنیا میں مذاق اُڑ رہا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی میں بھی تاریخ کے پرانے مشہور کردار زندہ ہوگئے ہیں جن کے اسماء تھے رستم وسھراب والد صاحب کو سنبھالتے ہیں تو فرزند نہیں مانتا کیونکہ صدارت اور وزارت اعظمیٰ ایک پلیٹ میں سمو نہیں سکتے اس سے آگے میری سیاہی ختم ہوگئی اور قلم نے چلنے سے انکار کردیا ہے کہہ رہا ہے پاکستان نہیں جانا کیا؟
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here