پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش!!!

0
99

قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی سے مصافحہ اور بات چیت کی پیشکش نہ صرف ایوان کے ماحول میں ایک خوشگوار لمحہ تھی بلکہ پاکستانی سیاست کے لیے ایک اہم علامتی اشارہ بھی۔ یہ وہ لمحہ تھا جسے صرف ایک رسمی مصافحہ سمجھنا کم فہمی ہوگی، کیونکہ اس کے پیچھے وہ طویل سیاسی بحران چھپا ہوا ہے جس نے گزشتہ چند برسوں میں نہ صرف جمہوری نظام کو مجروح کیا بلکہ معیشت، انتظامی کارکردگی، سرمایہ کاری اور قومی اتفاق رائے کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔یہ پہلا موقع نہیں کہ وزیر اعظم نے تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت دی ہو۔ کچھ عرصہ قبل بھی حکومت کی جانب سے مزاکرات کی تجویز دی گئی تھی اور دونوں جماعتوں کے نمائندوں کی ابتدائی ملاقات بھی ہوئی، تاہم یہ عمل جلد ہی تعطل کا شکار ہو گیا۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر مذاکرات کی ناکامی کا ملبہ ڈالنے کا سلسلہ چلتا رہا اور اس دوران ریاستی و سیاسی بیانیے مزید سخت گیر ہوتے گئے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں معاشی بحالی، پیداواری عمل، عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے اور انتظامی استحکام صرف اس لیے تاخیر کا شکار رہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں کسی مشترکہ قومی ایجنڈے پر متفق نہیں ہو سکیں۔ قومی مفادات بار بار سیاسی تناو کی نذر ہوئے۔ جب بھی مذاکرات کا آغاز ہوا، اس کا محور سیاسی مقدمات، رہائیوں، انتخابات کی تاریخ اور قیادت کی بحالی جیسے نکات بنے رہے ۔عوامی مفاد اور جمہوری استحکام ثانوی حیثیت اختیار کرتے گئے۔ یہ سچائی تسلیم کرنا ہوگی کہ اس وقت پاکستان صرف معاشی بحران ہی کا نہیں، بلکہ سیاسی اعتبار کے بحران کا بھی سامنا کر رہا ہے۔ سرمایہ کار غیر یقینی صورت حال میں سرمایہ لگانے سے گریزاں ہیں، عالمی مالیاتی ادارے داخلی استحکام کو شرطِ اول سمجھتے ہیں، اور عام شہری روزمرہ زندگی میں بداعتمادی، مایوسی اور بے یقینی کی قیمت چکا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی موجودہ پوزیشن، بلاشبہ ایک پیچیدہ مرحلے سے گزر رہی ہے۔ سیاسی میدان میں اس کی سرگرمیاں محدود ہیں، متعدد قائدین عدالتوں اور مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور جماعت کے اندر بھی حکمتِ عملی کے حوالے سے آرا میں فرق پایا جاتا ہے۔ قانونی اور احتجاجی راستے اپنانے کے باوجود ان مشکلات میں کمی نہیں آئی، جس کا براہِ راست اثر نہ صرف پارٹی کے کارکنوں پر پڑا بلکہ مجموعی سیاسی بیانیے پر بھی۔ایسے میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے مذاکرات کی تازہ پیشکش کو کسی رسمی روایت کے بجائے سیاسی بلوغت اور جمہوری ذمہ داری کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ حکومت، چاہے کسی بھی جماعت کی ہو، ریاست کا انتظامی چہرہ ہوتی ہے۔ ریاستی نظام کا استحکام اور پائیداری اسی وقت ممکن ہے جب حکومت اور اپوزیشن کسی نہ کسی حد تک مکالمے کے دروازے کھلے رکھیں۔ اگر سیاست محض الزامات، بائیکاٹ اور عدم اعتماد کے گرداب میں پھنسی رہے گی تو اس کا نقصان صرف مخالف جماعت کو نہیں بلکہ ملک کی بنیادوں کو ہوگا۔ تحریک انصاف کو چاہیے کہ وہ موجودہ حالات کا ادراک حقیقت پسندانہ انداز میں کرے۔ اس ابہام سے نکلنا ہوگا کہ وہ صرف عدالتی یا احتجاجی عمل کے ذریعے اپنے سیاسی مسائل حل کر لے گی۔ پاکستان کا زمینی سیاسی منظرنامہ اس وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ تمام بڑی جماعتیں، بشمول پی ٹی آئی، بات چیت کے عمل میں شامل ہوں اور صرف اپنی قیادت یا جماعتی مفاد کو ترجیح دینے کے بجائے قومی مفاد کو اولیت دیں۔یہ بھی واضح رہے کہ مذاکرات کا عمل کوئی یکطرفہ رعایت یا کمزوری کی علامت نہیں۔ دنیا کی تمام جمہوریتوں میں سیاسی اختلاف کے باوجود جب معاملات ریاستی اور قومی سطح پر آتے ہیں تو فریقین میز پر بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ اس عمل کو موقع دے، اس کے خدوخال پر بات کرے، اپنی شرائط رکھے، لیکن بات چیت کے امکان کو مسترد نہ کرے۔اسی طرح حکومت کو بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ بات چیت کی دعوت صرف اس وقت معتبر مانی جاتی ہے جب اس کے ساتھ سنجیدگی، استقامت اور لچکدار رویہ موجود ہو۔ اگر محض اخلاقی یا سیاسی برتری ثابت کرنے کے لیے یہ پیشکش کی جائے گی تو نہ صرف ناکامی کا خدشہ بڑھ جائے گا بلکہ مزید بدگمانی جنم لے گی۔ حکومت کو چاہیے کہ مذاکرات کے لیے ایک قابلِ اعتماد، بااختیار ٹیم تشکیل دے، جس کا مینڈیٹ واضح ہو اور جو صرف سیاسی جماعتوں سے نہیں، بلکہ ریاستی اداروں اور معیشت کے سٹیک ہولڈرز سے بھی مشاورت کا عمل مربوط رکھے۔یہ وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی لڑائیاں وقتی طور پر سمیٹ کر مستقبل کی تعمیر کا ایجنڈا بنائیں۔ اس عمل سے وقتی طور پر کسی کو فائدہ یا نقصان ہو سکتا ہے، مگر مجموعی طور پر یہ جمہوری تسلسل، نظام کی ساکھ اور عوامی اعتماد کی بحالی کا باعث بنے گا۔ جو سیاسی جماعتیں اس مرحلے پر قومی ہم آہنگی کے سفر میں شریک ہوں گی، تاریخ ان کی سوچ کو بلند نظری، دور اندیشی اور بالغ سیاسی فیصلے کے طور پر یاد رکھے گی۔ آج اگر ایک مصافحہ سیاسی جمود کو توڑنے کا ذریعہ بن سکتا ہے تو اسے رائیگاں نہیں جانا چاہیے۔ دونوں فریقین کو چاہیے کہ وہ اپنی جماعتی ترجیحات کو تھوڑی دیر کے لیے پسِ پشت ڈال کر قومی تقاضوں کو مرکزِ نگاہ بنائیں۔ اسی میں پاکستان کا مستقبل مضمر ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here