موجودہ سپین میں رہنے والے ہسپانوی باشندے ہوں یا جنوبی امریکہ کے رہائشی ہسپانوی نژاد لوگ ہوں، فلسطین پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف جس طرح وہ اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اس کی کوئی توجیہ ، علامہ اقبال کی نظموں کے علاوہ کہیں اور سے ملنا ممکن نہیں۔ سپین کے علاوہ میکسیکو، چلی، بولیویا، کولمبیا، برازیل، یوراگوئے، ایکواڈور اور وینزویلا کے لاکھوں افراد ہر ہفتے، فلسطین کے حق میں مظاہرے کرتے چلے آئے ہیں۔ ان ممالک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں فلسطین کے حق میں بڑے بڑے بینر آویزاں ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے فلسطین کی ریاست کو بھی تسلیم کر لیا ہے۔ بڑے بڑے جلوسوں میں، ان کے ولولہ انگیز نعرے سن کر واقعی لگتا ہے کہ سرزمین ہسپانیہ کی بادِ سحر میں پوشیدہ یہ وہی خاموش اذانیں ہی ہیں جو آج کل پھر کلمہ حق کہنے کیلئے بلند ہو رہی ہیں۔ اقبال نے کیا زبردست فرمایا تھا کہ!
پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تری باد سحر میں
سر زمینِ ہسپانیہ کو ایک ایسی منفی انفرادیت حاصل ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود بھی، کسی دوسری سرزمین کو یہ درجہ نہیں مل سکا۔ کی فتح اندلس سے لیکر کے سقوطِ غرناطہ تک مسلمانوں کی آماجگاہ رہنے والی یہ ہسپانیہ کی وادیاں، اذانوں کے صداں سے ایسے محروم ہوئیں کہ جیسے کبھی یہاں اہلِ توحید بسے ہی نہ ہوں۔ مسلمانوں کے اس عروج و زوال پر تو اہلِ علم نے بہت کچھ تحریر کیا ہے اور لکھتے بھی رہیں گے لیکن مجھے علامہ اقبال کے میں ہسپانیہ کے دورہ کی مشہورِ زمانہ نظمیں مثلا ہسپانیہ اور مسجدِ قرطبہ لکھنے پر حیرانی ہوتی ہے جن میں انہوں نے اس سرزمین سے اپنی انتہائی گہری محبت کا اظہار کیا ہے۔ آج سے تقریبا ایک صدی پہلے، دینی لحاظ سے اس بنجر علاقے کو اسلام کے اتنے قریب تصور کر لینا، صرف اقبال کے ہاں ہی مل سکتا ہے۔
ہسپانیہ تو خون مسلماں کا امیں ہے
مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں
آج کل کے دانشوروں کو فلسطین کیلئے ہسپانوی لوگوں کی جانب سے اٹھائی جانے والی آوازوں کی وجوہات سمجھ نہیں آرہی ہیں۔ کچھ اسے بائیں اور دائیں بازو کی سیاست سمجھ رہے ہیں اور کوئی اسے فلسطینی مہاجرین کی ہجرت، اس کی بڑی وجہ گردان رہا ہے۔حالانکہ، دنیا میں بائیں بازو کے نظریات کے حامل بہت سارے دیگر ممالک موجود ہیں جہاں فلسطین کی حمایت پر کوئی بات نہیں ہوتی۔ اسی طرح فلسطین کے مہاجرین تو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کا اثر و رسوخ بھی زیادہ تر برائے نام ہی نظر آتا ہے۔ یہ تو ہمیں مسجدِ قرطبہ کی اس مشہورِ زمانہ نظم سے ہی پتہ چلتا ہے کہ!
مٹ نہیں سکتا کبھی مرد مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سر کلیم و خلیل
اس کی زمیں بے حدود اس کا افق بے ثغور
اس کے سمندر کی موج دجلہ و دنیوب و نیل
اس کے زمانے عجیب اس کے فسانے غریب
عہد کہن کو دیا اس نے پیام رحیل
ہسپانیہ کے سفر کے دوران، مسجدِ قرطبہ کی حاضری نے علامہ اقبال پر جو اثرات چھوڑے، وہ ان کی اس طویل معرک الآرا نظم میں بہت واضح انداز سے نظر آتے ہیں۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ ہم اردو دان لوگوں سے بڑھ کر، ان ہسپانوی نژاد لوگوں نے اقبال کو بہتر انداز سے سمجھا ہے۔ دیکھئے، آج فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں، ان اشعار پر کون عمل کر رہا ہے؟
عالم نو ہے ابھی پرد تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
پردہ اٹھا دوں اگر چہر افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواں کی تاب
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکش انقلاب
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
٭٭٭













