18اکتوبر کا دن ایک خاص دن تھا جب بے نظیر بھٹو جنرل پرویز مشرف کی ناراضگی مول لیکر وطن واپس لوٹ رہیں تھیں ، کراچی میں انکے استقبال کی تیاریاں عروج پر تھیں ، پیپلز پارٹی کا گڑھ تصور کئے جانے والے لیاری میں جگہ جگہ استقبالی بئیر آوازاں تھے ، بے نظیر بھٹو کی حفاظت کے لئے ، بنائی گئی فورس کو “جاں نثاراں نے نظیر”کا نام دیا گیاتھا ، اسکی کمان لیاری انڈر ولڈ ڈان ، سردار عبدالرحمن بلوچ عرف “ڈکیت ” کے پاسں تھی ، ہتھیار بند لیاری گینگ وار کے لڑکے بے نظیر بھٹو کے استقبال کے لئے مکمل تیار تھے، مجھے یہ تحریر قلمبند کرنے کا خیال لیاری گینگ وار پر بنے والی بھارتی فلم اس میں رحمان ڈکیت اور چودھری اسلم کے کرداروں کو دیکھ کر آیا ۔ جرمنی کے معروف نیوز میگزین ڈیئر اشپیگل کی خاتون ایڈیٹر جو میری پرانی واقف تھیں انہوں نے بے نظیر بھٹو کی آمد سے ایک ہفتہ قبل فون پر کہا کہ وہ دبئی سے کراچی کا سفر اور انکا انٹرویو طیارے میں کرنا چہاتی ہیں ، میں نے برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر اور محترمہ کے مشیر خاص واجد شمسں الحسن مرحوم کے ذریعے اس ایڈیٹر کے سفر کو یقینی بنایا ، اٹھارہ اکتوبر 2007 کو جب بے نظیر بھٹو کراچی ائیرپورٹ پہنچیں تو ہزاروں کی تعداد میں کارکن اور رہنما اپنی قائد کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھے ، اس روز انکی حفاظت کے ذمہ دار “جانثاران بے نظیر “کے نام سے قائم فورس کے جوان تھے ، بے نظیر بھٹو کے ٹرک کے اندر اور اطراف سروں پر سفید پٹی باندھے نوجوانوں کا کمانڈر اور انچارج “رحمان ڈکیت تھا “جبکہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطے کی ذمہ داری رحمان ملک کی تھی، جبکہ ڈاکٹر ذولفقار مرزا اور آغا سراج درانی ، رحمان ڈکیت کوقفے وقفے سے ہدایات دے رہے تھے ، جلوس شاہراہ فیصل پر رواں دواں تھا ، “رحمان ڈکیت “اور اسکے رضا کار لڑکے بے نظیر بھٹو کے ٹرک کے ساتھ چل رہے تھے رات آٹھ یا 9 بجے کا وقت ہوگا ایک زور دار دھماکہ ہوا ہر طرف آگ اور خون تھا ، میں اس ٹرک سے ذرا فاصلہ پر ،” ڈیئر اشپیگل” کی خاتون ایڈیٹر کے ہمراہ موجود تھا ، جرمن خاتون صحافی بے نظیر کے ٹرک کے قریب جانا چہاتی تھیں مگر میں نے انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا ، جائے حادثہ پر قیامت کا منظر تھا آگ ، خون اور لاشیں ہر طرف بکھری ہوئی تھیں ، ھلاک ہونے والوں میں لیاری کے لوگوں کی اکثریت تھی، افراتفری اور زخمیوں کی چیخ پکار میں ایک” لینڈ کروزر “بے نظیر بھٹو کے ٹرک کے قریب لگائی گئی رحمان ڈکیت اور اسکے لڑکوں نے حفاظتی حصار بنایا “رحمان خود آگے آگے تھا ، بے نظیر بھٹو کو باحفاظت ٹرک سے کاڑی میں منتقل کروانے کا فریضہ رحمان ڈکیت نے انجام دیاہے ، اس دوران زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا جا رہا تھا، میں اے آر وائی ٹی وی ہمیشہ مسکرانے والے کیمرہ مین عارف خان خون میں لت پت دیکھا جسے ایمبولینس میں منتقل کیا جارہا تھا ، نا قابل بیان مناظر تھے ، دوسرے روز اکتوبر کو “ڈیئر اشپیگل کی ایڈیٹر نے بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی ، میں نے بلاول ہائوس سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ بے نظیر بھٹو زخمیوں کی عیادت کرنے اسپتال جانے کے لئے نکل رہی ہیں ، وہ طوفانی طور پر اسپتال گئیں ، زخمیوں کی عیادت کے بعد وہ لیاری گئیں ھلاک ہونے والوں کے ورثہ سے ملیں ، بعد ازاں شام کو بلاول ہائوس کراچی میں انہوں نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں آمریت اور جنرل مشرف کے سامنے ڈٹ جانے کا اعلان کیا ، بے نظیر بھٹو غیرملکی ذرائع ابلاغ کی اہمیت سے بہ خوبی آگاہ تھیں وہ جرمن پالیسی ساز میگزین کی اہمیت اور افادیت سے بھی واقف تھیں میری درخواست پر وہ جرمن صحافی خاتون سے کچھ دیر گفتگو پر آمادہ ہوگئیں ،پریس کانفرنس کے بعد انہوں نے مجھے اور صحافی خاتون کو اپنی سیکریٹری ناہید خان کے ذریعے بلاول ہائوس کے رہائشی حصہ میں بلوالیا ، اسی روز صحافی خاتون نے خواہش کی کہ وہ لیاری جا کر جاں بحق ہونے والے اور زندہ بچ جانے والے لوگوں کے اہلِ خانہ سے بات کرنا چاہتی ہیں ، اس وقت کے حالات میں کسی غیر ملکی خاتون صحافی کو لیاری کی تنگ تاریک گلیوں میں لیکر جانا ایک انتہائی مشکل کام تھا میں نے لیاری کی معروف سماجی شخصیت ظفر بلوچ مرحوم کے ذریعے لیاری کے اندرونی علاقے میں چند خاندانوں سے ملاقات طے کروائی ، میں اور جرمن صحافی خاتون لیاری پہنچے تو لی مارکیٹ سے موٹر سائیکل پر سوار دو لڑکوں نے ہماری رہنمائی کی یہ لڑکے تنگ گلیوں سے گزار کر ہمیں ایک چھوٹے سے گھر میں لے گئے ، ہماری آمد پر اس محلہ کے مرد خواتین اور بچے وہاں جمع ہو گئے تھے ، ایک غیر ملکی دراز قد خاتون کو وہاں دیکھ کر لوگوں کا جمع ہونا فطری عمل تھا ،وہاں موجود بعض بزرگ چہروں پر افسوس اور کرب نمایاں تھا اس علاقے کے کئی نوجوان خودکش حملے میں ھلاک ہوئے تھے ۔ ہمیں ایک چھوٹے سے گھر میں لیجایا گیا جہاں بزرگ خواتین اور ضعیف مرد موجود تھے، اسکے بعدہمیں ایک اور سادہ سے گھر میں لے جایا گیا جہاں مزید بزرگ خواتین موجود تھیں ،یہ سب خودکش دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں کے قریبی رشتہ دار تھے۔ وہ جو کہہ رہے تھے وہ ریکارڈ کیا جارہا تھا مگر لواحقین کے چہروں پر کوئی شکوہ نہ تھا، بلکہ وہ اپنے نوجوان بیٹوں کی موت کو بے نظیر بھٹو کی حفاظت کے لیے دی گئی قربانی سمجھ رہے تھے ۔ تھوڑی دیر میں موٹرسائکل پر ایک لڑکے نے آکر مجھے کہا کہ ظفر بلوچ نے ایک گھر میں آپ کے لئے چائے کاانتظام کیا ہے مگر جرمن خاتون صحافی اب وہاں سے واپس ہوٹل جانا چہاتی تھی، مگر ظفر بلوچ کی خواہش پر ہم وہاں گئے کچھ خواتین اور بزرگ موجود تھے ، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ گھر رحمان ڈکیت کی خالہ کا گھر تھا اور اسکے کئی قریبی رشتہ دار خواتین اور خاندان کے بزرگ وہاں موجود تھے ، وہ سب بے نظیر بھٹو پر اولاد تو کیا اپنی جان نثار کرنے پر آمادہ تھے اسی لئے رحمان ڈکیت کے گروپ کے لڑکوں کو “جان نثاران نے نظیر ” کا نا دیا گیا تھا ۔کچھ عرصے بعد ظفر بلوچ نے مجھے بتایا کہ جس گھرمیں ہم گئے تھے وہ دراصل رحمان ڈکیت کی خالہ کا گھر تھا ، اور جن لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں تھیں وہ سب سردار عبدالرحمن بلوچ عرف ڈکیت کے قریبی رشتہ دار تھے ، رحمان ڈکیت کے جانشین نوجوان اور لیاری انڈر ورلڈ کے نئے سربراہ عزیر بلوچ سے اکثر ملاقاتیں ہوتی تھیں وہ اس وقت بھی بہ ظاہر سلجھا ہوا نوجوان لگتا تھا مگر سفاک تھا انتقام اسکی آنکھوں سے جھلکتا تھا ، اس کی تفصیل پھر کبھی!
٭٭٭













