”منصوبہ بندی”

0
18
عامر بیگ

فلپائن کی سڑکوں پر دوڑتی جیپنی محض ایک سواری نہیں، ایک مکمل ثقافت ہے ، ہاتھ سے بنی ہوئی، جیپ کی صورت میں آگے اور پیچھے سے حسب ضرورت لمبا کر لیا جاتا ہے، مسافروں کے لیے آمنے سامنے لگی بیچیں، پیچھے سے چڑھتے اترتے مسافر اور باہر رنگ برنگی نقش و نگار بالکل ویسی ہیں جیسے ہمارے ہاں ٹرک آرٹ یا کراچی کی فلائنگ کوچز، یہ جیپنی وہاں گھریلو استعمال سے لے کر شو شا تک ہر مقصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ صاحبِ حیثیت لوگ اسے اپنی مرضی کے مطابق کسٹم میڈ بنوا لیتے ہیں اور یوں یہ سواری بھی شخصیت کا آئینہ بن جاتی ہے۔ انہیں جیپنیوں میں ایک عرصہ میرا بھی آنا جانا رہا۔ تعلیم کے آخری دنوں میں ایک دن کہیں جانے کے لیے جب جیپنی میں بیٹھا تو اچانک احساس ہوا کہ پینٹ کی پچھلی جیب کا بٹن ٹوٹ کر نیچے گر چکا ہے خود بخود ہاتھ جیب کی طرف گیا تو پرس غائب دل جیسے دھک سے رہ گیا، اس پرس میں واپسی کی ٹکٹ کے ڈالرز، کریڈٹ کارڈز، یونیورسٹی آئی ڈی اور سب سے بڑھ کر میری مرحومہ والدہ کی ایک نایاب تصویر تھی وہ تصویر جسے دیکھ کر ان کی نصیحتیں یاد آتی تھیں میں نے شور مچایا ڈرائیور نے گاڑی ایک طرف روک دی۔ پیچھے بیٹھے ایک شخص نے فورا مشورہ دیا کہ قریب ہی پولیس اسٹیشن ہے، وہاں جا کر رپورٹ درج کروا دو ڈرائیور نے بھی تائید کی میں جیپنی سے اترا اور سیدھا پولیس اسٹیشن پہنچا۔ افسر کو واقعہ سنایا تو اس کا پہلا سوال یہی تھا کیا جیپنی میں کسی نے تمہیں فورا یہاں آنے کا مشورہ دیا تھا؟ میرے ہاں کہتے ہی اس کے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ پھیل گئی اس نے کہا ، بس یہی تو جرم کی دنیا میں سب ملے ہوئے ہوتے ہیں ڈرائیور سے لے کر جیب کترے تک، اشارہ دینے والا، ہاتھ کی صفائی دکھانے والا، اور واردات کے بعد مشورہ دینے والا سب ایک ہی گروہ کا حصہ ہوتے ہیں یہ سن کر ذہن میں ایک اور در کھلا جب ایک چھوٹے سے جرم کے لیے اتنی منظم منصوبہ بندی، اتنے کردار اور اتنی ہم آہنگی درکار ہے، تو بڑے جرائم کے لیے کیسی منصوبہ بندی ہوتی ہوگی؟ کتنی ٹیمیں صرف اوبجیکٹ کی نشاندہی کے لیے، کتنی گھیرا اور واردات کے لیے، اور کتنی بعد از واردات مرحلے کو سنبھالنے کے لیے؟ پھر مالِ غنیمت کو ٹھکانے لگانے اور پورے نظام کو جوڑے رکھنے کے لیے الگ منصوبے اور لوگ یہی اصول اگر ہم بڑے منظرنامے پر رکھیں تو سوال اور گہرا ہو جاتا ہے حکومتیں بنانے اور گرانے کے لیے کتنی منصوبہ بندی، کتنے ذہین دماغ، کتنا سرمایہ اور بعض اوقات کتنے ادارے متحرک ہوتے ہوں گے؟ اور پھر حصہ بقدرِ جثہ سب کو ملتا ہے ہماری سیاست بھی اسی حقیقت کی عکاس ہے عمران خان کے دورِ حکومت میں ہزارہا کوششوں، محنت اور لگن کے باوجود ان کی مقبولیت میں کمی آئی تھی کچھ نے تو یہء کہا تھا کہ اسے کچھ اور دیر چلنے دیا جاتا تو وہ اگلا الیکشن بھی جیت نہ پاتے وجوہات جو بھی رہی ہوں، پر آج وہ دوبارہ شہرت کی بلندیوں کو چھوتے دکھائی دیتے ہیں۔ بظاہر منصوبہ کامیاب ہوا، نقاب الٹے، عوام کی آنکھیں اور کان کھلے، اور اب قوم شاید بہتر فیصلہ کرنے کے موڈ میں ہے کہ کون کیا ہے اور کون کیا کر سکنے کی اہلیت رکھتا ہے جرم کی دنیا ہو یا سیاست کا میدان، ایک اصول مشترک ہے کھرا ہمیشہ ڈھونڈا جاتا ہے اور اکثر سب سے پہلے اسی پر نظر جاتی ہے جو واردات میں سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہا ہو مگر کھرا صرف چور پکڑنے یا چوری کا مال برآمد کرنے کے لیے نہیں نکالا جاتا اگر نیت ہو تو اچھے کاموں کے لیے بھی کھرا نکالا جا سکتا ہے ،بس فرق صرف نیت اور سمت کا ہے اور ہاں، اچھے کاموں کے لیے بھی منصوبہ بندی اتنی ہی ضروری ہے، جتنی برُے کاموں کے لیے ،شاید اصل امتحان یہی ہے کہ ہم جیپنی کی وارداتوں سے سبق سیکھ کر اپنی اجتماعی زندگی میں منصوبہ بندی کو کس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here