7اکتوبر1958۔25مارچ1969۔5جولائی1977ء اور بارہ اکتوبر1999کے وہ ایام بربادی ہیں کہ جن دنوں پر پاکستان کے جنرلوں نے ملک کی منتخب حکومتوں کے تختے اُلٹے۔پارلیمنٹوں کو برطرف کیا آئین پامال کیا۔چالیس سال تک غیر قانونی اور غیر آئینی حکمران بنے رہے ،گیارہ گیارہ سال تک پاکستان کو مارشلائوں کی نظر رکھا جس کو عہد جدید میں ناقابل فرمواش سانحات تصور کیا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ پاکستان کو کس طرح جنرلوں نے تباہ وبرباد کیا، ملک کو بے دردی سے پرائی جنگوں کے لیے استعمال کیا کہ جس سے ملک میں خون کی ندیاں بہہ گئیں جس سے 70ہزار پاکستانی اور چھ ہزار پاک فوج کے جوان شہید ہوچکے ہیںجس کا سلسلہ ابھی تک بند ہونے کو نہیں آرہا ہے۔اس پورے سانحات میں صرف ایک میجر اور چارسپاہی استعمال ہوئے ہیں جو مجوزہ یوم سیاہ پر ملک کے منتخب وزیراعظم کے گھر گئے جنہوں نے وزیراعظم کو گرفتار کرلیا ملک پر فوجی جنرلوں کی حکومت پر اعلان کردیا۔یہ وہ واقعات ہیں کہ جن پر فلمیں بنائی جائیں تو پوری دنیا بڑے اشتیاق سے دیکھے گی کہ پاکستان میں پچاس سال تک کیا ہوتا رہا ہے۔یا آج بھی اپنے کٹھ پتلیوں کے ذریعے کیا کیا جارہا ہے تاہم پاکستان کے زندہ سابقہ وزیراعظم نوازشریف نے پچھلے ہفتے بارہ اکتوبر1999کے دن اپنا تختہ اُلٹنے والے واقعات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس دن میرا تختہ الٹایا گیا تو چند بندوق سپاہیوں کے ساتھ جنرل محمود وزیراعظم ہائوس میں داخل ہوا اور حکم دیا کہ آپ وزیراعظم ہائوس خالی کردیں آپ کا تختہ اُلٹا جاچکا ہے تو میں نے جواباً کہا کہ میں عوام کا منتخب وزیراعظم ہوں اور نہتا بھی ہوں آپ بندوقوں کے ساتھ کیوں وزیراعظم ہائوس میں داخل ہوئے ہیں تو انہوں نے اپنے ایک میجر اور چار سپاہیوں کو حکم دیا کہ انہیں گرفتار کر لو جس کے بعد مجھے ایک ماہ تک غمناک مقامات پر رکھا گیا مجھے اپنے خاندان سے ملنے نہ دیا گیا جن کو معلوم نہ تھا کہ میں زندہ ہوں یا مار دیا گیا ہوں۔ایک ماہ کے بعد مجھ پر جنرل مشرف کے جہاز اغواء کرنے کا مقدمہ قائم کیاگیا کہ میں نے وہ جہاز جس پر جنرل مشرف غیر ملکی دورے سے واپس آرہے تھے جن کے پاس جنرلی پستول بھی لٹک رہا تھا جن سے پی آئی اے کا پائلٹ خوف زدہ تھا جو جنرل کے اشارے پر جہاز اڑا رہا تھا۔اس جہاز کو نواز شریف نے زمین پر بیٹھ کراغوا کیا ہے۔لہٰذا ان کو سزائے موت دی جائے جس پر عمل کرتے ہوئے دہشت گردی کی عدالت نے جہاز اغواء اور دہشت گردی کے مقدمات میں سزائے موت دی تھی جس کو بعد میں عدالت نے عمر قید میں تبدیل کردیا تھا ورنہ پاکستان کا وزیراعظم نوازشریف بھی وزیراعظم زیڈ۔اے بھٹو کی طرح پھانسی کی بھینٹ چڑھ چکا ہوتابعدازاں جنرل مشرف کی ملک بدری اور دبئی میں پناہ گیری کے بعد سابقہ وزیراعظم نوازشریف کو تمام مقدمات کی سزائوں کو کالعدم قرار دے کر تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہونے کا موقع فراہم کیا جن کو پھر تیسری مرتبہ اسی عدالت نے اقامہ ابن پانامہ کے ایک من گھڑت مقدمے میں برطرف کردیا کہ انہوں نے گلف ریاستوں میں اپنے بیٹے کی کاروباری کمپنی میں ملازمت اختیار کی تھی جس کی تنخواہ نہ لینے کا ذکر اپنے الیکشن کمیشن کے کاغذات میں نہ کرنے پر وزیراعظم سے نکالا جارہا ہے یہ وہ فیصلہ ہے جس سے سپریم کورٹ کی وہی جانبداری نظر آئی ہے جس کا اظہار فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس منیر احمد یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انوارالحق،چیف جسٹس ارشاد خان رہ چکے ہیںجنہوں نے پاکستان پر قابض جنرلوں کی غیر قانونی اور غیر آئینی حکومتوں کو جائز قرار دیا تھا جنہوں نے آئین پاکستان کے مدمقابل جنرلوں کے فوجی قانون پی سی او کے تحت حلف وفاداری اُٹھائے تھے جس کا آئین پاکستان اجازت نہیں دیتا ہے تاہم مذکورہ بالا ایام سانحات کا ذکر کرنے کا مطلب اور مقدمہ پر ہے کہ پاکستان میں گزشتہ74سالوں سے کیا ہوتا رہا ہے اور کیا ہو رہا ہے کہ جس کے لیے وزیراعظم کا تختہ الٹنے کے لیے اک میجر تے چار سپاہی آف ٹرپل ون استعمال کیے گئے ہیںجنہوں نے بنا کسی مزاحمت کاری ملک پر قبضہ کرلیا چونکہ پاکستانی عوام کو متحد اور منظم نہیں جو نسلوں لسانوں، مذہبوں میں تقسیم شدہ ہیں جو ہر حملہ آور کو خوش آمدید کرتے چلے آرہے ہیں۔ورنہ پاکستانی عوام بھی دنیا کی دوسری قوموں کی طرح جنرلوں پر قابو پالیتی جس طرح حال ہی میں موجودہ صدی کی پہلی اور دوسری دہائی میں مسلح ریاستوں ایران، بنگلہ دیش اور ترکی نے اپنی باغی جنرلوں کی فوج پر ڈنڈوں سے قابو پا لیا ہے۔جس کی مثال دنیا میں بہت کم ملتی ہے کہ ترک عوام نے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں اور جنگی ہوائی جہازوں کو ڈنڈوں سے شکست فاش دی ہے چونکہ تیسری دنیا کے عوام کو سامراجی استعماری طاقتیں مقامی جابروں اور ظالموں اور غاصبوں کے حوالے رکھنا چاہتی اسی لیے مذہبی دنیا نے ابھی تک ترک انقلاب اور ایران انقلاب تسلیم نہیں کیا ہے۔ورنہ ترکی اور ایران کے انقلابات قابل ذکر ہیں۔بحرحال پاکستان میں فوجی جنرلوں کی سازشیں آج بھی جاری ہیںجو منتخب حکومتوں کے خلاف برپا رہتی ہیں جن کی عدالتیں اتحادی بن چکی ہیں جو جنرل تختے الٹ کر اقتدار پر قبضے کیا کرتے تھے وہ آج کام عدالتوں سے لیا جاتا ہے جو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیراعظم نوازشریف کو برطرف کرکے اقتدار عمران خان جیسے ایک بدکردادر، بداعمال کے حوالے کر دیتے ہیںجو اپنی نااہلیوں، ناکامیوں اور نادائیوں سے پاکستان کو اس نہج پر پہنچا چکا ہے کہ جس میں آپ پھر1971والا سانحہ برپا ہونے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیںجس کا واحد حل یہ ہے کہ پاکستان کی عوام متحد اور منظم ہو کر ملک دشمن طاقتوں کا مقابلہ کرے تاکہ ملک کو ہمیشہ کے لیے بارہ اکتوبر جیسے سانحات سے بچایا جائے۔
٭٭٭