کراچی:
سوشل میڈیا پر خواتین کو ہراساں کرنے کی شکایات میں اضافہ ہوا ہے۔
ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کراچی کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار نے بتایا کہ زیادہ تر شکایات سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک سے متعلق ہوتی ہیں جبکہ تقریبا 70 فیصد شکایات ہراساں کرنے کی ہیں اور ان میں نوے فیصد شکایات خواتین کی ہیں، گزشتہ سال ایف آئی اے کو ہراساں کرنے کی4 ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئیں اوررواں سال کے پہلے تین ماہ کے دوران15سو سے زائد شکایات مل چکی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ زیادہ ترشکایات کرنے والے خاندان یا متاثرہ فریق معاملے کو عدالت میں لیجانے سے پہلے ہی ختم کردیتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ وہ معاشرے میں اپنی اور اپنے خاندان کی ساکھ خراب نہیں کرنا چاہتے، خواتین کی جانب سے ہراساں کئے جانے کی 90 فیصد شکایات کرنے والے افراد اپنی شکایت ملزم کی جانب سے معافی نامہ لکھنے، تصاویر سوشل میڈیا سے ہٹانے اور آئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کی یقین دہانی پر واپس لے لی جاتی ہیں، صرف 10 فیصد شکایات عدالت میں قانونی کارروائی کیلئے لیجائی جاتی ہیں۔
سائبر کرائم سرکل میں موجود ایک متاثرہ لڑکی نے بتایا کہ اس کے سابق دوست نے فیس بک پر اس کی قابل اعتراض تصاویر اپ لوڈ کر دی تھیںجس پر اس نے نیند کی گولیاں کھا کر خودکشی کی کوشش کی، اس نے اپنے خاندان کو اعتماد میں لے کر ایف آئی اے سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔
سائبر کرائم سیل کے ٹیکنیکل اہلکار طارق حسین نے بتایا سائبر کرائم کی شرح میں تیزی سے اضافے ہو رہا ہے تاہم ایف آئی اے سائبر کرائم سیل انسانی اور مالی وسائل مکمل طور پر محروم دکھائی دیتا ہے، سائبر کرائم ونگ کراچی کا قیام 2007 میں عمل میں آیا اس کے بعد سے اب تک تکنیکی آلات کو اپ گریڈ کیا گیا نہ فرانزک لیب اور کمپیوٹر سافٹ ویئر تبدیل ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس افسران سائبر کرائم ونگ کے اہم انتظامی عہدوں پر فائز ہیں جبکہ ان میں بڑی تعداد آئی ٹی کے شعبے سے نابلد ہے، تربیتی کورسز کیلیے سائبر ماہرین کے بجائے انتظامی افسران کو سرکاری خرچ پر بیرون ملک بھیج دیا جاتا ہے، غیرتکنیکی انتظامی افسران کی وجہ سے آج تک ایف آئی اے سوشل میڈیا ویب سائٹس اور اپلیکیشنز کے ساتھ معاہدے کرنے میں ناکام رہا ہے اور یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ مقدمات کی تفتیش تاخیر کا شکار ہوتی ہے۔