اسلام آباد:
قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کے مشترکہ اجلاس نے آئی ایم ایف وفد سے معاشی اہداف نرم کرنیکا مطالبہ کر دیا۔
بدھ کے روز اجلاس میں ارکان نے سالانہ ٹیکس ہدف کم ،اصلاحات مرحلہ وارجبکہ ایکسچینج ریٹ پرپاکستان سے نرم رویہ رکھا جائے ۔انھوں نے شکوہ کیاآئی ایم ایف پروگرام کے باعث مہنگائی بڑھ رہی ہے جس پروفد نے جواب دیا ایکسچینج ریٹ بتدریج عمل ہے۔ارکان نے بتایا وفد نے ہمارے مطالبے سن لیے تاہم معاشی اہداف میں نرمی کا وعدہ نہیں کیا۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین اسد عمر نے بتایاوفدسے اچھی ملاقات رہی، ایکسچینج ریٹ مارکیٹ پرمبنی ہے،آئین میں رہ کر احتجاج کرنا مولانا کا حق ہے،مذاکرات کا نتیجہ اصول پر بات کرنے سے نکلے گا۔
سینیٹ قائمہ کمیٹی خزانہ کے چیئرمین فاروق ایچ نائیک نے بتایاآئی ایم ایف نے واضح کیا یہ ان کا پروگرام نہیں حکومت پاکستان کا ہے،سروسز پر سیلز ٹیکس صوبائی معاملہ ہے ،حکومت اسے وفاق کے تحت کرنا چاہتی ہے جو آئین کی خلاف ورزی ہو گی،شرح سود کم ہونے تک سرمایہ کاری نہیں ہو گی، روزگار کم ہو رہا ہے،کھانے پینے کی اشیاء15 سے 20 فیصد مہنگی ہوگئیں، آئی ایم ایف کی شرائط مد نظر رکھ کر بات کرنی چاہیے،ایکسچینج ریٹ پر بات ہوئی، اسے کنٹرول کرنا ضروری ہے،ٹیکس بڑھانے سے سمگلنگ بڑھ جاتی ہے،ٹیکس کی بجائے ٹیکس بیس بڑھانا چاہیے،حکومت فریقین کیساتھ بیٹھے اورتجاویز لے۔
شیری رحمن نے کہا ایسا لگا اجلاس میں پاکستان نہیں کسی اور ملک کی باتیں ہو رہی ہوں،حکومتی اعداد و شمار اور زمینی حقائق مختلف ہیں،ہم آئی ایم ایف کو نہیں ،عوام کو جوابدہ ہیں،عام آدمی پس رہا ہے،اس کی قوت خرید ختم ہو رہی ہے،اجلاس میں وزیر خزانہ موجود نہیں تھے،کئی سوالوں کے حکومت کے پاس جواب نہیں تھے،وہ لوگوں کو سڑکوں پر لا رہی ہے،سونامی قیمتوں اور بیروزگاری کی آئی،آج بھی آئی ایم ایف پروگرام کے خدوخال پیش نہیں کئے گئے۔