بھارت میں مسلمانوں کے خلاف مسلح انتہا پسند ہندو جماعت راشٹریہ سیوک سنگھ کی پر تشدد کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے آر ایس ایس کو جن سے تشبیہ دی ہے جو بی جے پی کی وجہ سے بوتل سے باہر آ کر خون خرابہ کر رہا ہے۔ اپنے ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم نے کہا کہ” آر ایس ایس کے انتہا پسند نظریات نے ایک ارب سے زاید آبادی والے جوہری ملک پر قبضہ کر لیا ہے۔ ان کا نظریہ نسلی اور مذہبی بنیاد پر مسلمانوں سمیت اقلیتوں سے نفرت پر مبنی ہے“۔ بلاشبہ بھارت میں مسلمان دشمنی میں اندھے انتہا پسندوں نے داخلی امن کے ساتھ ساتھ خطے کا امن بھی داﺅ پر لگا دیا ہے۔ بھارت کے نئے آرمی چیف اس ماحول میں وہی زبان استعمال کر رہے ہیں جو مودی حکومت اور آر ایس ایس کی پہچان رہی ہے۔ جنرل منوج نروانے نے کہا ہے کہ انہیں حکم ملا تو وہ آزاد کشمیر پر قبضہ کر لیں گے۔ جنرل نراوانے پورے جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے رہے ہیں اور اپنی مغربی سرحدوں پر خطرات کی موجودگی بارے آگاہ کر رہے تھے۔ مسلمانوں کا اقتدار ختم ہونے کے بعد ہندوﺅں کی انتہا پسندی میں مسلمان دشمنی گھلی۔ تحریک آزادی کی ابتداءمشترکہ مقاصد کے تحت مشترکہ جدوجہد کے اصولوں پر ہوئی۔ مسلمان، ہندو، سکھ، پارسی،دلت سب نے قربانیاں پیش کیں لیکن جوں جوں انگریز کا اقتدار کمزور ہوا ہندوستان میں ہندوﺅں نے باقی اقوام کے استحصال کا طرز عمل اپنا لیا۔ لالہ لاجپت رائے ہو یا مہاتما گاندھی کو قتل کرنے والا گوڈسے، بابری مسجد کو شہید کرنے کی مہم چلانے والا ایل کے ایڈوانی ہو یا گجرات میں مسلمانوں کو ذبح کرنے والا قصاب نریندر مودی، تاریخ کا ایک باب ہے جو سیکولر اور جمہوری دعوﺅں کی کتابوں پر بھاری پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ بی جے پی ہندو عسکریت پسند گروپوں کا سیاسی چہرہ ہے۔ بی جے پی کا اقتدار میں آنا اس امر کی علامت ہے کہ بھارت میں اب ہندو راج کا خواب دیکھنے والے طاقتور ہو گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایسی درجن بھر تصاویر تقسیم ہوتی رہیں جن میں نازی ہٹلر اور انتہا پسند نریندر مود ی کے اٹھنے بیٹھنے اور ملنے ملانے کے طریقوں میں مماثلت ظاہر ہوتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آر ایس ایس کے بارے میں ایک جامع خطاب کر چکے ہیں۔ نریندر مودی اس تشدد پسند تنظیم کے کارکن رہے ہیں اور اب بھی ان کی کابینہ میں ایسے متعددافراد موجود ہیں جو آر ایس ایس سے تعلق رکھتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس کو جلانے اور مسلمانوں پر حملوں میں ملوث افراد کو مودی کابینہ میں شامل کیا گیا ہے۔ نیشنل رجسٹر فار سٹیزن(NRC)آر ایس ایس اور اس کی حامی مودی حکومت کے ہاتھ میں مسلمانوں کو پریشان کرنے کا نیا ہتھیار بن کر آیا ہے۔ اس قانون کی منظوری کے بعد صرف آسام میں 20لاکھ مسلمان بھارت کے لیے اجنبی قرار دیدیئے گئے ہیں۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی سمیت بھارت کی 11ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے اس قانون کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کیا ہے۔ مسلمانوں کو بھارت کے لیے ناقابل قبول قرار دینے کا مطلب گویا ان پر تبدیلی مذہب کے لیے دباﺅ ڈالنا ہے۔ شہریت بل کو آر ایس ایس اپنے اتحادیوں کے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ حالیہ دنوں جامعہ ملیہ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلبا و طالبات کے خلاف پولیس نے کارروائیاں کیں۔ ان کارروائیوں کی خاص بات یہ ہے کہ آر ایس ایس کے غنڈے پولیس کے ہمراہ ہوتے ہیں اور وہ طلباء پر تشدد کرتے ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ بھارت میں نازی نظریات انتہا پسند گروپوں میں حلول کر گئے ہیں۔ آر ایس ایس کے غنڈے مسلمانوں کو غدار، گائے کھانے والے، چور، بنگالی درانداز، بے اعتبار کشمیری اور ایسے ہی دیگر برے ناموں سے پکارتے ہیں۔ داڑھی اور برقعہ پر تضحیک آمیز جملے کستے ہیں۔ کشمیر پر پانچ ماہ سے بھارت نے پابندیاں عاید کر رکھی ہیں۔ کشمیریوں کو قتل کیا جا رہا ہے، حراست میں لے جا رہا ہے۔ خواتین کی بے حرمتی کی جا رہی ہے، باغات اور کاروبار تباہ کر دیئے گئے، سیاحت کی صنعت برباد ہو گئی مگر آئینی حیثیت میں ترمیم کے بعد بھارت ہمت نہیں کر پا رہا کہ کشمیر پر عاید پابندیاں ہٹائے۔ اسے ڈر ہے کہ کشمیری سڑکوں پر نکل آئیں گے اور بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف دنیا کی توجہ حاصل کر لیں گے، یہ وہی کشمیر ہے جس پر بھارت نے قبضے کی کوشش کی مگر مجاہدین نے اس کے پنجوں سے ایک بڑا علاقہ چھین لیا۔ آزاد کشمیر کے لوگ اپنے بھائی بہنوں کی خاطر بھارت سے ٹکرانا چاہتے ہیں۔ بھارتی آرمی چیف کا دعویٰ حقائق سے لاعلم کسی آر ایس ایس کارکن کے نعرے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ آزاد کشمیر پر قبضہ کرنا آسان ہوتا تو بھارت 72سال سے کشمیری مجاہدین کے ہاتھوں لگنے والے زخم نہ چاٹ رہا ہوتا۔ بین الاقوامی برادری امریکہ میں خانہ جنگی اور نسلی امتیاز کی تاریخ سے واقف ہے، جنوبی افریقہ میں کالے اور گورے کس طرح ایک دوسرے کی جان کے دشمن رہے یہ بھی سب جانتے ہیں۔ جرمنی میں نازیوں نے جو ظلم ڈھائے ان پر خود جرمن قوم شرمندگی کا اظہار کرتی رہی ہے۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جو طویل جنگ لڑی اس میں ایسے مسلمان گروپوں کو نشانہ بنایا گیا جو امریکی مفادات کی راہ میں حائل تھے۔ دنیا کے سامنے آر ایس ایس ایک نئے خطرے کے طور پر آ رہی ہے۔ صرف بھارت میں آباد 20کروڑ مسلمان ہی نہیں آر ایس ایس بنگلہ دیش، پاکستان، مالدیپ، نیپال اور سری لنکا تک پھیلے مسلمانوں کے خلاف پرتشدد سوچ رکھتی ہے۔ اس فتنے کے خلاف اقوام متحدہ اور طاقتور ممالک خاموش رہے تو خطے کا امن کسی روز ایٹمی جنگ برباد کر سکتی ہے۔
٭٭٭