وقت اس جنگ کو ٹھیک اس کیفیت میں بدل رہا ہے جب اس کا مقصد واضح اور نیتّیں روز روشن کی طرح کھل کر سامنے آجائیں گی۔ فرات کے کنارے برپا معرکہ نہ بیس سال پہلے کبھی حق و باطل کی جنگ تھی اور نہ آئندہ ایسا ہوتا نظر آتا ہے۔ کیونکہ آخر الزماں سے متعلق رسول کی احادیث میں یہ واحد تنازعہ یا جنگ ہے، جس کا مقصد سونے کے پہاڑ پر لڑائی بتائی گئی ہے اور اس سے علیحدہ رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عرب و عجم کے اس جھگڑے کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں قوت، طاقت اور اقتدار کا لالچ ایسے غالب ہے کہ دونوں گروہ اس جنگ سے کبھی باز نہیں آئیں گے اور بالآخر نبی رحمت کی وہ پیش گوئی سچ ثابت ہو کر رہے گی کہ اس دولت پر لڑنے والوں میں سے ننانوے فیصد افراد ہلاک ہو جائیں گے۔ کل تک جو تبصرہ نگار یہ سمجھ رہے تھے کہ امریکہ اور ایران کی براہ راست جنگ کا آغاز ہوچکا ہے، انہیں گذشتہ ہفتے کی صورتحال سے خوب اندازہ ہو چکا ہوگا کہ دونوں فریق کسی صورت میں براہ راست ٹکراو¿ نہیں چاہتے۔جو لوگ جنگ عظیم دوم کے بعد کی جنگ و جدل کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ کہیں بھی دو ملکوں کے درمیان براہ راست جنگ جو صرف سرحدوں پر لڑی جائے یا جسے دونوں ملکوں کی مسلح افواج ہی لڑیں، ایسی جنگ میں بڑی طاقت کی جیت آسان ہوتی ہے۔ چھوٹے ملکوں کی افواج اور انکی صلاحیتیں بڑی عالمی طاقتوں کے سامنے کوئی وقعت نہیں رکھتیں، خصوصا جب یہ چھوٹے ملک جہازوں، ٹینکوں اور ہیلی کاپٹروں کے پرزوں کے حصول کے لیے بھی بڑی طاقتوں کے محتاج ہوں۔ صدام حسین کی عراقی فوج دنیا کی چوتھی بڑی فوج تھی۔ چھ ہزار ٹینک، چار ہزار بکتر بند گاڑیاں اور نو لاکھ سپاہی۔ لیکن یہ فوج امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے سامنے2003ءمیں یوںتتربتر ہوئی جیسے پرندوں کے غول فائر سن کر بکھر جاتے ہیں۔ پوری دنیا کو قومی ریاستوں میں تقسیم کرکے، سرحدوں کو مقدس بناکر، زمین کے ایک ایک انچ کے تحفظ کے لئے افواج کے ادارے قائم کرنے کا بنیادی مقصد ہی یہی تھا کہ بڑی اسلحہ ساز قوتوں کا اقتدار مستحکم ہو جائے اور ان کے اسلحے کا کاروبار بھی مستقل طور پر دن رات ترقی کرتا رہے۔اس جنگ میں بھی ایران کوبخوبی اندازہ تھا کہ امریکہ سے براہ راست جنگ اس کیلئے فوری طور پر نقصان کا سودا ہے، اور امریکہ بھی یہ جانتا ہے کہ ایران کسی طور پربھی اسکے ساتھ براہ راست جنگ کی طرف نہیں آئے گا۔لیکن اسے یہ معلوم تھا کہ ایران نے گذشتہ بیس سالوں سے ایک متبادل جنگی نظام (Proxies) وضع کررکھا ہے جو پورے مشرق وسطیٰ میں برسرپیکار ہے۔ یہ” پراکسیز” آج کے دور میں کسی بھی بڑی طاقت کو اپنے ملک میں جنگ میں شکست دے سکتی ہیں۔ ایسی جنگی حکمت عملی کو آج سے پچاس سال پہلے تک گوریلا جنگجو قوتیں کہا جاتا تھا۔ روس اور امریکہ کے درمیان جاری رہنے والی چالیس سالہ سرد جنگ میں ویتنام اور کیوبا جیسے ملکوں میں یہی گوریلا جنگجو ہی تھے جنہوں نے فتح حاصل کی اور امریکہ جیسی قوت کو شکست دی۔ اسی حکمت عملی کوجب افغانستان میں روس کے خلاف آزمایا گیا تو سویت یونین جیسی نظریاتی عالمی طاقت بھی شکست کا شکار ہوگئی۔ امریکہ اور تمام اتحادی افواج جب نائن الیون کے بعد اپنی پوری قوت سے افغانستان میں آئیں تو جیت کے نشے میں تھیں مگر طالبان کی اسی ”پراکسی” جنگ کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوئیں۔ ایران کا متبادل جنگی نظام جو ”پراکسیز ”یعنی گوریلا نما جہادی تنظیموں پر بنیاد رکھتا ہے، اس کا نیٹ ورک پورے مشرق وسطیٰ میں پھیلا ہوا ہے اور یہ بہت منظم ہے۔ ایران اپنے اردگرد کے پڑوسی ملکوں میں جنگ کرنے والی ان تنظیموں کی حمایت کرنے کو کسی طور پر بھی نہیں چھپاتا۔ جب پاسداران انقلاب کا سربراہ پریس کو بریفنگ وغیرہ دے رہا ہوتا ہے تو اس کے پیچھے ان تنظیموں کے پرچم آویزاں ہوتے ہیں۔ ان میں سے آٹھ پرچم عموما دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ پرچم ان ”پراکسیز ”کے ہیں۔ لبنان سے حزب اللہ، یمن سے انصاراللہ، عراق سے حشد الشعبی، فلسطین سے حماس، ایران کی سرکاری تنظیمیں پاسداران انقلاب اور باسیج جبکہ دو ایسی تنظیموں کے پرچم بھی نمایاں ہوئے ہیں جہاں ایران کا براہ راست کوئی جھگڑا نہیں، ایک پاکستان سے بھرتی ہونے والی ءلیواءزینبیوں اور دوسری افغانستان سے تیار کردہ لیواءفاطمیون ہے۔ لیکن ان تمام تنظیموں اور ان کے زیر اثر دیگر چھوٹے چھوٹے گروہوں کی لڑائیاں بھی خطے میں ایسی ”پراکسیز ” کے ساتھ ہیں جن کے بارے میں ایران کا الزام یہ ہے کہ انہیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات یا دیگر سنی حکومتیں مدد فراہم کرتی ہیں۔ ایرانی ” پراکسیز ” کے خلاف لڑنے والے گروہوں میں بہت سے ایسے ہیں جو عرب اسرائیل تنازعہ کی کوکھ سے پیدا ہوئے اور آہستہ آہستہ اپنے علاقوں اور ملکوں میں مسلح جدوجہد کی علامت بنتے گئے۔ اخوان المسلمون سے القاعدہ اور جبتہ النصریٰ تک، ان کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ان میں سے ہر کوئی اسلامی انقلاب کا داعی ہے، طاغوت سے لڑنے والا ہے اور اپنے ملکوں میں قائم بادشاہوں اور آمریتوں کے خلاف بھی بندوق اٹھاتا ہے اور عالمی سطح پر امریکہ اور دیگر طاقتوں سے بھی لڑ رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ان کی جنگ بہت ہی گنجلک ہو چکی ہے، بلکہ ایک گورکھ دھندہ بن چکی ہے۔ ایران نے اپنے مسلک کے افراد کو منظم کرکے لبنان، یمن، بحرین، شام اور عراق میں ”پراکسیز ”منظم کی ہیں۔ ان میں شام اور عراق میں ایرانی” پراکسیز” حکومتوں کے ساتھ ہیں۔ بحرین اور یمن میں حکومتوں کے مخالف، جبکہ لبنان میں دیگر گروہوں کے ساتھ کبھی شراکت اقتدار اور کبھی مخالفت اقتدارکی جنگ۔ افغانستان کی ایرانی پراکسیز حکومت کے ساتھ ہیں جبکہ سعودی عرب کی ایرانی پراکسیز حکومت کے خلاف۔ غرض پوراخطہ مسلک کے نام پر ایک بڑی کشمکش میں مبتلا ہے، ایک دوسرے کا خوں بہا رہا ہے۔ سعودی عرب اور عراق کی حکومتیں امریکہ کی ساتھی ہیں تو شام کی حکومت کی پشت پر روس کھڑا ہے۔ عراق میں ایران کی ”پراکسی ”امریکہ کے ساتھ اور سعودی عرب اور یمن میں اس کی” پراکسی” امریکہ کے خلاف۔ لیکن ان سب کی جنگ کا اصل میدان وہی فرات کا کنارہ اور شام و عراق کی سلطنتیں ہیں۔ اس پورے خطے میں حکومتوں پر عوام کے حقیقی نمائندے نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے گماشتے بزور قوت بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تیل کی دولت نے یہاں کے حکمرانوں کو عالمی طاقتوں کا شریکِ کاروبار بھی بنا دیا ہے۔ہر حکمران کا مفاد امریکہ اور عالمی طاقتوں کے ساتھ مشترک ہے۔ تیل کا خزانہ یا ”سونے کا پہاڑ”ہی وہ وجہ نزاع ہے جس کے حصول پر جنگ جاری ہے۔ ایران اپنی ”پراکسیز” کے ذریعے اگر ایسی تنصیبات پر حملہ کرتا ہے جو دونوں کی کاروباری اشتراک والی ہیں تو یہ براہ راست ان ملکوں اور بالواسطہ امریکہ پر بھی حملہ ہی ہوگا۔ اسی لیے امریکہ اس خطے میں ایران سے براہ راست جنگ کا خواہاں نہیں۔ اسے علم ہے کہ اس وقت سنی اور شیعہ دونوں جانب سے تقریبا دو درجن سے زیادہ مسلح گروہ اس خطے میں ایک دوسرے کا خون بہانے کے لئے کافی ہیں۔ اسے براہ راست لڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ جو جہاں غالب آجائے گا وہ تیل کی ترسیل اور کمائی کے لئے امریکہ کی ٹیکنالوجی اور یورپ کی منڈیوں کا محتاج ہوگا۔ جتنا اس خطے میں امن کم ہوگا،اتنا ہی تیل سستا ملے گا۔ داعش کے تیل کے کنوو¿ں سے آدھی سے بھی کم قیمت پر تیل ملتا تھا۔ ایسے میں جنگ مزید واضح ہوتی چلی جائے گی۔ اس کے مقاصد بھی روز روشن کی طرح کھل کر سامنے آجائیں گے۔ فرات کے کنارے کی اس جنگ میں دونوں جانب صرف کلمہ گو مسلمانوں کی گردنیں لہو سے رنگین ہوں گی۔ دونوں جانب اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوں گی اور دونوں کی نظریں فرات کے کنارے سونے کے پہاڑ پر لگی ہوں گی۔ مشرق وسطیٰ کی ”پراکسیز” دراصل سو میں سے ننانوے مسلمانوں کی موت کا پیغام ہیں اور یہی وہ واحد جنگ ہے جس سے رسول اکرم نے علیحدہ رہنے کیلئے فرمایا ہے۔
٭٭٭