شکر ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان فی الحال جنگ کا خطرہ ٹل گیا ہے ، رواںبرس تین جنوری کو ایرانی جنرل قاسم کوامریکہ نے ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا تھا جس کے جواب میں ایران نے امریکی بیس پر میزائل حملہ کیا اور متعدد امریکی فوجیوں کو زخمی کر دیا ، ہاروڈ لا سکول کے گریجویٹ بنجمن بی فیرنز نے امریکہ کی جانب سے ایرانی جنرل کو ہلاک کرنے کے اقدام کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے جنگ کی طرف پہلا قدم بڑھانے کے متراد ف قرار دیا ہے اور امریکی آئین کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے لکھا کہ جنگ کا اختیار صدر کی بجائے کانگریس کے پاس ہے ۔یہی وجہ تھی کہ امریکی حملے کے صرف چھ روز بعد حیران کن طور پر ڈیموکریٹس کی جانب سے ایک قرار داد پاس کی گئی جس میں امریکی صدر کے جنگ کے متعلق اختیارات کو محدود کر دیا گیا ،ایران اور امریکہ کی جانب سے ایک دوسرے کے اہداف پر حملے دنیا میں بڑی جنگ کو چھیڑ سکتے تھے ، امریکہ نے جنگی اقدام میںپہل کرتے ہوئے عالمی سطح پر اپنا منفی تاثر پیش کیا جبکہ ایران نے اپنی عوام کے سامنے ساکھ کو بچانے کے لیے چھ گھنٹے پہلے وارننگ دے کر امریکی بیس الاسد پر میزائل حملہ کیا ۔
ایران کی جانب سے میزائل حملے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو اس وقت بھی شرمندگی کا سامناکرنا پڑا جب انھوں نے اعلان کیا کہ ایرانی میزائل حملے میں امریکہ کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور نہ اس حملے میںکوئی امریکی فوجی یا شہری زخمی ہوا ہے لیکن اس کے فوری بعد امریکی فوج نے بیان جاری کیا کہ ایرانی میزائل حملے میں 34کے قریب امریکی فوجی دماغی زخموں کا شکار ہوئے ہیں ۔اسی طرح مسافر طیارے کو میزائل حملے میں نشانہ بنانے پر ایرانی حکومت کو بھی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب پہلے انھوں نے اس طیارے کی میزائل حملے میں تباہی کی یکسر طور پر نفی کر دی لیکن اس کے بعد ایرانی صدر نے اس بات کا اعتراف کیا کہ یوکرائنی مسافر طیارے کو غلطی سے میزائل سے نشانہ بنایا گیا ، ایران کو جنگی حالات میں اپنی فضائی حدود کو عام طیاروں کے لیے بند کر دینا چاہئے تھا ،جیسا کہ پاکستان ہر مرتبہ بھار ت کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کے موقع پر اپنی فضائی حدود کو عام ٹریفک کے لیے بند کردیتا ہے ۔
ایرانی جنرل سلیمانی کے قتل پر ایران کے مشرق وسطیٰ اور برادر ممالک میں اپنے اثرو رسوخ کو بڑھانے کے لےے ملیشیا کو متحرک کرنے کے اقدامات بھی سامنے آئے ہیں ، ایرانی انقلاب فورس کی جانب سے لبنان ، شام ، عراق ، افغانستان ، پاکستان اور یمن میں اپنے حامیوں کی بھرپور مدد کررہا ہے اور انہیں ہرممکن سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں اور سعودی عرب کی اجارہ داری کو کم کرنے کیلئے بھرپور کردار ادا کیا جا رہا ہے ، امریکی حلقوںکی جانب سے یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ صدر ٹرمپ نے مواخذے سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے ایران سے حالات کو کشیدہ کیا تاکہ لوگوں کی توجہ دوسری طرف مرکوز ہوجائے لیکن ایسا نہیں ہوسکا ۔
ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک ناکام ہوئی لیکن اس سے ان کی سیاسی مشکلات میں کوئی نمایاں کمی نہیں آئی ، اگرچہ عوامی سطح پر ان کی مقبولیت میں معمولی اضافہ ضرور ہوا ، دوسری جانب سینیٹ میں صدر ٹرمپ کے ٹرائل نے برنی سینڈرز ، الزبتھ وارن اور ایمی کی انتخابی مہم کو بھی متاثر کیا کیونکہ امریکی قاتون کے تحت صدر کے مواخذے کے سینٹ میں ٹرائل کے دوران کوئی ممبر بھی نہ تو اجلاس چھوڑ کر کہیں جا سکتا ہے اور نہ اجلاس کے دوران فون استعمال کر سکتا ہے ، اس صورتحال نے یہ تاثر چھوڑا ہے کہ شاید ڈیموکریٹک پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ جو برنی سینڈرز کی مخالف سمجھی جاتی ہے ، اپنے امیدوار اور سابق نائب صدر جوبائیڈن کو فائدہ پہنچانا چاہتے تھے جس میں وہ بری طرح ناکام ہوئے ہیں کیونکہ سینڈرز نیو ہیمپشائر، کاکس جیت گئے ہیں تاہم ان کی اپنے حریفوں پر سبقت میں نمایاں کمی نظر آئی ، کیا سینڈرز ڈیموکریٹک اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی چالوں کو ناکام بناتے ہوئے صدارتی امیدواربن جائیں گے ؟ اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں مل جائے گا۔