مجیب ایس لودھی، نیویارک
امریکہ میں پولنگ پاکستان اور دیگر ممالک کی طرح صرف بیلٹ سے کاسٹ نہیں ہوتی ہے بلکہ اس سلسلے میں فون لائن ، روبو کالز اور آن لائن ووٹنگ کا طریقہ کار بھی شامل کیا جاتا ہے کچھ لوگ اپنے توقع کے مطابق نتائج نہ آنے پر ووٹنگ پر اعتراض کرتے ہیں جوکہ انتہائی نامناسب بات ہے ، اس سلسلے میں 2016کے انتخابات کی مثال لے لیتے ہیں، صدارتی انتخاب 2016 نے دنیا کو دنگ کر کے رکھ دیا۔ رائے عامہ کے تمام جائزے الٹ پڑ گئے۔ سینکڑوں تجزیہ کاروں کے تجزیے غلط ثابت ہوئے۔ ٹرمپ کے حامیوں کے علاوہ دنیا بھر میں کچھ لوگ شرمندہ ہیں اور کچھ حیران لیکن یہ سب ہوا کیسے؟کوئی کہتا ہے ٹرمپ کی تحریک کے پیچھے اقتصادیات ہیں، کچھ کہتے ہیں سفید فام امریکیوں کے دلوں میں اقلیتوں کے لیے چھپی نفرت سامنے آ گئی ہے۔ کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ امریکیوں نے ہلیری کی نفرت میں ٹرمپ کو ووٹ دیے ہیں، ہلیری کلنٹن پر لوگوں کو اعتماد نہیں تھا، وہ عورت ہیں، ان کی شخصیت عام آدمی کے قریب تر نہیں تھی وغیرہ وغیرہ ، ان تمام دعووں میں شاید تھوڑی تھوڑی حقیقت ہو مگر ماہرین کی مہارت سے کچھ دل اٹھ گیا ہے۔ تو اس پہیلی کو پرانے طریقے سے پرکھتے ہیں۔ووٹنگ کے نتائج پر نظر دوڑانے سے مجھے ہلیری کلنٹن کی ناکامی کی وہی وجہ واضح نظر آئی جو مدتوں سے سیاسی حریفوں کے درمیان فیصلہ کن عنصر بنتی ہے اگرچہ عملی طور پر امریکہ میں دو جماعتی سیاسی نظام چلتا ہے مگر کہیں کہیں چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتیں موجود ہیںاور یہی آزاد امیدوار ہیلری کلنٹن کو لے بیٹھے تھے۔امریکی صدارتی انتخاب میں الیکٹورل کالج کی وجہ سے امیدوار نتائج کا ریاست بہ ریاست جائزہ لیتے ہیں مگر قومی سطح پر مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو آزاد امیدواروں کے ووٹ حاصل کرنے کی شرح ماضی کے انتخابات کے برعکس 2016 میں زیادہ رہی تھی ۔صاف ظاہر تھا کہ ٹرمپ اور کلنٹن کے اس کانٹے دار مقابلے جہاں پاپولر ووٹ میں ہلیری کو سبقت رہی، 4.8 فیصد جیت اور ہار میں فیصلہ کن فرق تھا۔ماضی میں امریکی صدارتی انتخابات میں یہ شرح اس سے کہیں زیادہ رہ چکی ہے۔ مگر گذشتہ چار انتخابات میں یہ اتنا اہم عنصر نہ تھا۔ آزاد امیدواروں کی اہمیت کو اس بار تقویت کیوں ملی؟اس سوال کا جواب ہی ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح اور ہلیری کلنٹن کی ناکامی کا باعث بنا۔امریکی صدارتی انتخاب میں الیکٹورل کالج کی وجہ سے امیدوار نتائج کا ریاست بہ ریاست جائزہ لیتے ہیں۔ مگر قومی سطح پر مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو آزاد امیدواروں کے ووٹ حاصل کرنے کی شرح ماضی کے انتخابات کے برعکس 2016 میں زیادہ رہی۔ 2012 کے صدارتی انتخاب میں آزاد امیدواروں 1.6 ووٹ ملے، 2016 میں یہ شرح 4.8 فیصد تک رہی۔پولنگ کے حوالے سے ایک بہت عام قانون ہے کہ جب جب پولنگ میں امیدوار کی فتح میں پانچ فیصد کا فرق ہو تو ریاستی سطح پر وہ خود بخود نیچے آ جاتا ہے جبکہ پولنگ کے دوران اس کو پانچ فیصد کے حساب سے سبقت مل رہی ہو تو وہ ریاستی سطح پر خودبخود اوپر آ جاتا ہے ۔پولنگ کی میتھوڈولوجی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے جس کے مطابق ابھی حالیہ انتخابات کے دوران پولنگمیں برنی سینڈرز کو 7 پوائنٹس کی واضح برتری حاصل تھی اور اس کا ڈیٹا آئی وی آر یعنی وائس رسپانس سسٹم آف لینڈ لائن اور ایمازون کے آن لائن پینل سے حاصل کیا گیا ، پولز کے ریکارڈ میں لینڈ لائن کے اعدادو شمار شامل تھے ناکہ سیل فونز کے ، اس کو ہم روبو کال بھی کہتے ہیں جس میں براہ راست کوئی نمائندہ بات نہیں کرتا ہے بلکہ ایک روبوٹ آپ سے مخاطب ہوتے ہوئے معلومات اکٹھی کرتا ہے۔روبو کالز کے ذریعے پولنگ کو کوئی مستند ووٹنگ کا طریقہ کار قرار نہیں دیا جاتا ہے جس کی وجہ بنیادی طر پر یہی ہوتا ہے کہ اس میں کوئی نمائندہ براہ راست بات چیت نہیں کرتا ہے ۔ روبوٹ انگریزی اور ہسپانوی زبان میں آپ سے پولنگ کے متعلق معلومات حاصل کرتا ہے اور اسی پولنگ کے ذریعے برنی سینڈرز نے 15 پوائنٹس کی سبقت حاصل کی ہے۔ اے بی سی نیوز واشنگٹن پوسٹ نے پولز کے حوالے سے اچھی حکمت عملی اپناتے ہوئے لینڈ لائن اور سیل فونز دونوں کا استعمال کیا ، انھوں نے ہسپانوی زبان میں بھی معلومات حاصل کیں ۔پیو ریسرچ بھی جعلی پولنگ کے حوالے سے اپنی رپورٹ جاری کر چکی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ چار سے سات فیصد پولنگ غیر مصدقع ذرائع سے حاصل ہوتی ہے ۔اس لیے اس ووٹنگ پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ہے ، پولنگ سائنس اور آرٹ کا حسین امتزاج ہے جیسے میڈیا آرگنائزیشنز کسی بھی معاملے پر سروے کے لیے پولنگ کرتی ہیں ، حالیہ انتخابی مہم میں اہم صدارتی امیدوار بلوم برگ کی مثال لے سکتے ہیں جنھوں نے ابھی تک کامیابی اشتہاری مہم سے اپنی شناخت کو میڈیا میں زندہ کیے ہوئے ہے ، اس طرح کی مثبت مہم ہی انتخابی نتائج میں فرق کا باعث بنتی ہے ۔حالیہ انتخابی مہم کے دوران برنی سینڈرز کو صدارتی امیدواروں میں واضح برتری حاصل ہے ، جوبائیڈن بھی 52 ہفتوں سے اپنی مہم میں باخوبی مصروف ہیںاور اب تک 28 فیصد تک ووٹنگ اوسط حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ، 3 مارچ سپر منگل صدارتی امیدوار بلوم برگ کے لیے حقیقی طور پر فیصلہ کن دن ثابت ہوگا ، اس حوالے سے پولنگ کی سائنس کو لازمی طور پر ذہن نشین رکھیں یہ بہت ضروری ہے کہ آپ پولنگ کے ہر باریک بینی سے باخوبی واقفیت حاصل کریں۔