اسلام آباد:
پیٹرول بحران پر تحقیقاتی رپورٹ وزیراعظم عمران خان کو پیش کر دی ہے جس میں 9 آئل مارکیٹنگ کمپنیون کو مصنوعی بحران پیدا کرنے کا ذمے دار قرار دیا گیا ہے اور وزیر اعظم نے ملوث کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کرنے کا حکم جاری کردیا ہے۔ ۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 9 آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے جان بوجھ کر بحران پیدا کیا، وزیراعظم نے پٹرول بحران میں ملوث کمپنیوں اور ذمہ داران کے خلاف کاروائی کی ہدایت کی اور کمپنیوں کے لائسنس منسوخ، ملوث افراد کو گرفتار اور ذخیرہ شدہ پیٹرول مارکیٹ میں سپلائی کرنے کا حکم دے دیا ۔
ایکسپریس کو موصول رپورٹ کے مندرجات کے مطابق رپورٹ کے مطابق کمیٹی نے پی ایس او۔ حیسکول۔ پی ایم سی کمپنیوں کے آئل ڈپوز کا دورہ کیا اور ذخائر کا معائنہ کیا۔ تمام کمپنیوں کے پاس پیٹرول کے وافر ذخائر موجود تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تیل کی مصنوعی قلت میں ملوث کمپنیوں کو اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کیے جائیں۔ ایک ماہ میں تیل کی سپلائی بہتر نہ ہو تو لائسنس منسوخ کر دیے جائیں۔ 9 آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے جان بوجھ کر بحران پیدا کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈی جی آئل ڈٓاکٹر شفیع آفریدی اورپٹرولیم ڈویژن افسران اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے۔
وزیراعظم نے اس موقعے پر کہا کہ پیٹرول بحران کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا، بحران میں ملوث کمپنیوں کے لائسنس معطل اورمنسوخ کیے جائیں، تمام آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو 21 دن کا ذخیرہ یقینی بنانے کا پابند کیا جائے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیٹرولیم بحران تحقیقاتی کمیٹی اور ایف آئی اے کو نوٹس جاری کردیا
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہرمن اللہ کی عدالت نے پٹرولیم مصنوعات کی ذخیرہ اندوزی کے معاملے پر حکومتی کاروائی کے خلاف درخواست پروزارت توانائی ،اوگرا، فیول کرائسسز کمیٹی اور ایف آئی اے کوجواب کیلئے نوٹس جاری کردیے۔
جمعرات کو سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ آئل کمپنیوں کو تحقیقاتی کمیٹی نے نوٹس کرنا تھا جب نوٹس ایف آئی اے نے دیا۔ایگزیکٹو کے اختیارات میں عدالت تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے، اوگرا اور ایف آئی اے کو کمیٹی میں ڈال دیا گیا پھر وہ بعد میں کیس کیسے دیکھیں گے۔
آئل کمپنی کے وکیل عابد ساقی نے کہاکہ 8 جون کو وفاقی وزیر نے پیٹرول کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی کے لیے یہ کمیٹی تشکیل دی ،اوگرا آرڈیننس کے تحت وفاقی وزیر ایسی کمیٹی تشکیل نہیں دے سکتا۔اوگرا ریگولیٹر ہے وہ اپنے وضع کردہ طریقہ کارکے تحت ہی ایکشن لے سکتا ہے۔قانون میں ایسی گنجائش نہیں کہ وفاقی وزیر ایسی کوئی کمیٹی تشکیل دے۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ ایف آئی اے کو کمیٹی میں آئل کمپنیز کو ہراساں کرنے کے ڈالنا بھی غیر قانونی ہے،پی ایس او کا بھی کمیٹی کا رُکن ہونا مفادات کا ٹکراؤ ہےکیونکہ وہ مسابقتی کمپنی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ درخواست گزار کمپنی کو کیا کوئی نوٹس آیا ہے؟جس پر وکیل نے کہاکہ 12 جون کو ایف آئی اے نے میری کمپنی کے سی ای او کو طلبی کا نوٹس بھیجا، جس پر عدالت نے استفسارکیاکہ کیا وفاقی حکومت نے یہ کمیٹی تشکیل دی یا وفاقی وزیر نے؟ اس پر درخواست گزار وکیل نے بتایاکہ وفاقی حکومت نہیں بلکہ وفاقی وزیر نے یہ کمیٹی تشکیل دی،عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مزید سماعت 25 جون تک ملتوی کردی۔