اسلام آباد:
ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ استعفیٰ ہمیشہ اخلاقی بنیادوں پر دیا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں ابھی اخلاقیات اس سطح تک پہنچی نہیں۔
سانحہ تیزگام ایکسپریس کی تحقیقات کے لئے دائر درخواست پر کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کی، درخواست گزار کا مؤقف تھا کہ وزیر ریلوے کا حادثے پر جو کنڈکٹ رہا اُس پر انہیں استعفیٰ دینا چاہیے تھا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ وزارت داخلہ اپنی انکوائری کر رہی ہے، پولیس اپنی اور ریلوے اپنی انکوائری کر رہی ہے،اگر کنڈکٹ پر استعفیٰ دینا پڑا تو اس وقت سارے وزرا کو استعفیٰ دینا پڑے گا، استعفیٰ ہمیشہ اخلاقی بنیادوں پر دیا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں ابھی اخلاقیات اس سطح تک پہنچی نہیں، سانحہ موٹر وے کی بھی ساری تحقیقات میڈیا میں ہی ہورہی ہیں، پورا پاکستان ہی اس معاملے پر تفتیشی افسر بنا ہوا ہے۔
وزارت داخلہ اور ریلوے نے سانحہ تیزگام سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کر دی ہے، جس میں 15 افراد کو سانحے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے، اور بتایا گیا ہے کہ تمام ذمہ داران کیخلاف ضابطے کی کارروائی شروع کی جا چکی ہے۔
رپورٹ میں ڈپٹی ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کراچی، ڈویژنل کمرشل آفیسر کراچی، ایس ایچ او حیدر آباد اور خانپور غفلت کے مرتکب پائے گئے، جب کہ ریزرویشن سپروائزر قمر شاہ پر بھی بے ضابطگی کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے، 5 ہیڈ کانسٹیبل سانحے کے براہ راست ذمہ دار قرار پائے ہیں، اس کے علاوہ ایک تبلیغی جماعت کا رکن اور 2 پرائیویٹ ویٹرز سانحے کے براہ راست ذمہ دار قرار دیئے گئے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سانحہ تیز گام کی شفاف تحقیقات اور معاوضہ ادائیگی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔واضح رہے کہ کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیز گام ایکسپریس میں آگ بھڑک اٹھی تھی جس کے نتیجے میں 74 مسافر جاں بحق اور 90 سے زائد زخمی ہوگئے تھے، ریلوے انتظامیہ کے مطابق حادثہ سلنڈر پھٹنے سے پیش آیا جب کہ عینی شاہدین کے ملے جلے بیانات میں یہ بات سامنے آئی کہ ٹرین میں آگ شارٹ سرکٹ کے باعث لگی