استنبول:
کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کو اجاگر کرنے پر بھارتی میڈیا نے پاکستان اور ترک صدر کے خلاف پراپیگنڈا مہم شروع کردی ہے جس میں صدر طیب اردوان کی ایما پر ترکی میڈیا میں پاکستانی اور کشمیری صحافیوں کو شامل کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ دنوں بھارت کے ایک بڑے میڈیا گروپ زی نیوز نے پراپیگنڈے سے بھرپور ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ 15 اگست کو ترکی خبررساں ادارے کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی کشمیر کے حریت پسند رہنما کی بیٹی کا مضمون بھارت کو بدنام کرنے کی کوشش تھی۔
بھارتی نیوز چینل نے خارجہ امور کے ماہرین کے حوالے سے یہ الزام بھی لگایا کہ صدر طیب اردوان ترکی میں اسلام پسند حلقوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے دنیا بھر سے ترکی میڈیا میں اسلامی شدت پسندوں کو بھرتی کر رہے ہیں۔
اس رپورٹ میں یہ دعوی بھی کیا گیا کہ بھارت کو بدنام کرنے کے لیے پاکستان خاص طور پر ترک میڈیا میں صدر اردوان کی حمایت سے ایسے تربیت یافہ پاکستانی صحافیوں کو بھرتی کیا جا رہا ہے جو بالخصوص کشمیر سے متعلق ایسی رپورٹ کرتے ہیں جس کے باعث عالمی سطح پر بھارت کا تاثر خراب ہو۔
اس حوالے سے ترکی کے نیوز چینل سے وابستہ صحافی حسن عبداللہ نے اپنی ایک ٹوئٹ میں بھارتی میڈیا کے دعوؤں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ادارے میں 100 سے زائد غیر ملکی صحافی کام کرتے ہیں جن میں پاکستانی اور بھارتی صحافیوں کی تعداد برابر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہاں کام کرنے والے کئی بھارتی صحافی اس بات کا اعتراف کرتےہیں کہ وہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے حامی ہیں۔ لیکن ان صحافیوں کی سیاسی وابستگی کی بنا پر کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا جب کہ بھارت کو ترکی میڈیا میں اسلام پسندوں کے کام کرنے پر بہت اعتراض ہے اور گزشتہ کئی دنوں سے بھارتی سوشل میڈیا پر صدراردوان کے خلاف پراپیگنڈا جاری ہے۔
واضح رہے اس سے قبل بھی بھارت کے حکومتی وسفارتی اور میڈیا کے حلقوں کی جانب سے ترکی کی جانب سے کشمیر پر پاکستانی مؤقف کی تائید کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے بالخصوس گزشتہ برس کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے غیر قانونی بھارتی اقدام کی ترک صدر کی جانب سے دو ٹوک مذمت پر بھارتی میڈیا میں ان کے خلاف منفی خبریں اور تنقیدی مضامین شائع کیے گئے۔