ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
گزشتہ سے پیوستہ!!!
آپ نے عرفہ کے دن ایک جماعت کو لوگوں سے مانگتے ہوئے دیکھا تو آپؑ نے فرمایا خدا تم پر رحم کرے کیا اس جیسے دن غیر خدا سے مانگتے ہو جبکہ اس دن تو یہ امید کی جاتی ہے کہ رحم مادر میں جو بچے ہیں وہ سعادت مند ہوں گے۔آپ اپنی منہ بولی والدہ کے ساتھ کھانا کھانے سے دریغ فرماتے تھے آپؑ سے پوچھا گیا کہ اے فرزند رسول آپ تو سب سے زیادہ نیکو کار اور صلہ رحمی کرتے ہیں۔تو پھر آپؑ اپنی منہ بولی والدہ کے ساتھ کھانا تناول کیوں نہیں کرتے تو فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میرا ہاتھ اس چیز کی طرف بڑھے جس چیز کی طرف میری منہ بولی والدہ کی نظر گئی ہو۔آپؑ سے ایک شخص نے کہا میں اللہ کی خاطر آپؑ سے سخت محبت کرتا ہوں تو فرمایا اے میرے اللہ میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ مجھ سے تیری خاطر محبت کی جائے جبکہ تو مجھ سے نفرت کرتا ہو۔
آپؑ نے ناقہ پر سوار ہو کر بیس حج کئے مگر آپؑ نے ایک بار بھی اسے چابک نہیں ماری اور جب وہ اونٹنی مر گئی تو آپؑ نے اسے دفن کرنے کا حکم دیا تاکہ اسے درندے نہ کھا جائیں۔آپؑ کے بارے میں آپؑ کی ایک کنیز سے پوچھا گیا تو اس نے کہا بات کو طول دوں یا کلام مختصر کروں؟اس سے کہا گیا مختصراً بیان کرو لہٰذا اس نے کہا میں کبھی دن میں ان کے لیے کھانا لے گئی اور نہ ہی رات میں کبھی ان کے لیے بستر لگا۔ایک دفعہ آپ کا گزر کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جو آپ کو برُا بھلا کہہ رہے تھے تو آپ وہاں کھڑے ہوگئے اور فرمایا اگر تم سچ کہہ رہ ہو تو اللہ میری مغفرت کرے اور اگر تم لوگ جھوٹ کہہ رہے ہو تو خدا تمہاری مغفرت کرے۔جب کبھی آپؑ کے پاس کوئی طالبعلم آتا تو آپ فرماتے رسول خدا کی وصیت کو خوش آمدید،اس کے بعد فرماتے جب کوئی طالبعلم اپنے گھر سے نکلتا ہے تو جس خشک و تر پر قدم رکھتا ہے وہ زمین اپنے سات طبقوں سمیت اس کے لیے تسبیح کرتی ہے۔آپ مدینہ کے سو غریب گھرانوں کی کفالت کرتے تھے۔آپؑ کو یتیموں نابیناﺅں زمین گیروں اور مسکینوں تک کہ جن کا کہیں سے کوئی آسرا تمہیں ہوتا کھانا پہنچانا بہت پسند تھا۔نیز آپؑ اپنے دست مبارک سے ان کو دیتے اور جن کے اہل وعیال ہوتے تھے تو ان کے اہل وعیال تک کھانا پہنچاتے تھے۔آپؑ اس وقت تک کھانا شروع نہ کرتے جب تک کہ اس طرح صدقہ نہ کردیتے آپؑ کے کثرت سے نماز پڑھنے کی وجہ سے ہر سال آپؑ کے سجدہ کرنے کے مقام سے سات گھنٹے کاٹے جاتے آپ انہیں اکٹھا کرتے اور جب آپ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو انہیں آپ کے ہمراہ دفن کر دیا گیا۔آپ نے پینتیس سال اپنے والد بزرگوارامام حسینؑ پر گریہ کیا جب بھی آپ کے سامنے کھانا پیش کیا جاتا تو گر یہ کرنے لگتے تھے یہاں تک کہ آپ کے ایک غلام نے آپؑ سے کہا اے فرزند رسول خدا کیا اب تک آپ کے گریہ کرنے کا وقت ختم نہیں ہوا۔تو آپؑ نے فرمایا خدا تم پر رحم کرے حضرت یعقوبؑ کے بارہ بیٹے تھے اور خدا نے ان سے صرف ایک بیٹے کو غائب کیا تھا تب بھی گر یہ کی وجہ سے ان کی بصارت زائل ہوگئی تھی اور غم واندوہ کی وجہ سے ان کے سر کے بال سفید ہوگئے تھے اور اس غم میں ان کی کمر جھک گئی تھی حالانکہ ان کا بیٹا تو دنیا میں زندہ موجود تھا جبکہ میں نے اپنے والد اپنے بھائی اپنے چچا اور سترہ اہل خاندان کو اپنے اردگرد مقتول دیکھا ہے تو میرا حزن بھلا کس طرح ختم ہوسکتا ہے۔