جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، میرے اندر کا پاکستانی بُری طرح مجروح، نا امید اور وطن و قوم کے مستقبل سے مایوس نظر آرہا ہے۔ گزشتہ کالم کی اختتامی سطور پر میرے بعض احباب نے محبت بھرا اعتراض کیا ہے کہ سیاسی اشرافیہ کو ہدف بناتے ہوئے میں نے بشمول حکومت، کا استعمال کیوں کیا۔ ایک سچا اور وطن سے دور وطن کی محبت رکھنے والے پاکستانی اور غیر جانبدارانہ صحافت کے کارکن ہونے کے باعث میرا فرض ہے کہ ملک و ملت کے مفاد کے پیش نظر میں ہر اس معاملہ کی نشاندہی کروں جو وطن کی سالمیت و وقار اور عوامی بہبود کے منافی ہو۔ سو میں اپنا قومی و صحافتی فریضہ ادا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔
اس وقت میرا وطن عزیز اور عوام جس صورتحال سے گزر رہے ہیں، اس کا ادراک ہر اس پاکستانی کو ہے جس کے دل میں وطن کی محبت کی ذرا سی بھی رمق ہے۔ متعدد بار وطن میں مقتدر رہنے والی سیاسی اشرافیہ جب اقتدار سے محروم ہوتی ہے تو اسے مقتدرین، اداروں اور حکمرانوں میں وہ کیڑے نظر آتے ہیں جو ان کے اپنے دور اقتدار میں محسوس نہیں ہوتے اور وہ اپنے بیانیہ کے اظہار میں اس حد تک چلے جاتے ہیں جو غیروں بلکہ دشمنوں کے ایجنڈے و اہداف کا بیانیہ بنتے ہیں۔ دور کیوں جائیں موجودہ صورتحال پر ہی نظر ڈالیں تو میرے متذکرہ بالا مو¿قف کی تصدیق ہوتی ہے۔
عمران خان کی حکومت کےخلاف اور اپنے مفادات کے لئے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں اور دیگر چھوٹی بڑی مذہبی، قوم پرست جماعتوں کے اکٹھ سے تشکیل پانے والے اتحاد خصوصاً تین بار کے وزیراعظم رہنے والے نوازشریف، اس کی بیٹی اور فضل الرحمان و دیگر سیاسی قائدین کے بیانیئے اور رویوں پر نظر ڈالیں تو ان کا تمام تر کردار و عمل پاکستان کے ریاستی اداروں، عدلیہ اور ملک کی سلامتی کیخلاف اور پاکستانی دشمنوں خصوصاً بھارت کے ایجنڈے اور پالیسی کے موافق نظر آتا ہے۔ عدلیہ سے نا اہل و مجرم قرار دیا گیا بیماری کے بہانے لندن پہنچ کر افواج پاکستان کے سپہ سالار و سلامتی کے اداروں کے سربراہ اور اعلیٰ ترین عدالتی اشرافیہ کےخلاف زہر اُگلنے والا نوازشریف، اس کی بیٹی، اقتدار کی راہداری سے محروم بلبلاتا ہوا فضل الرحمن ملکی سلامتی کی اس ریڈ لائن کو بھی کراس کرتے ہیں جو پاکستان کی بقاءکیلئے لازم و ملزوم ہے یہی نہیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اختر مینگل، محمود اچکزئی اور ڈاکٹر مالک جیسے قوم پرست حتیٰ کہ شاہ احمد نورانی مرحوم کا بیٹا انس نورانی (جس کی کوئی سیاسی اسٹینڈنگ نہیں) بھی پاکستان کی سالمیت کےخلاف اور دشمن قوتوں کی مفاداتی زبان بولتے نظر آرہے ہیں۔ یہ نام نہاد رہنما جو کردار ادا کر رہے ہیں اس حوالے سے برصغیر میں استعمال ہونےوالا ایک ضرب المثل شعر صادق آتا ہے!جعفر از بنگال، صادق از دکن
ننگ ملت، ننگ دیں، ننگ وطن
حکومت سے مخالفین کی سیاسی مخالفت و مخاصمت تو جمہوریت کا حصہ ہے لیکن اپنے مفادات کیلئے غیروں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہو کر ملکی مفاد اور ریاست و مملکت کےخلاف بیانیہ حب الوطنی کی نفی ہے تو ایسے لوگوں کو ننگ ملت اور ننگ وطن ہی کہا جاتا ہے جو ایسی حرکات کرتے ہیں۔ نوازشریف کی گوجرانوالہ اور کوئٹہ کے جلسوں میں اور مریم نواز کے پی ڈی ایم کے تمام جلسوں میں آرمی چیف، جنرل حمید، جنرل عاصم باجوہ پر الزامات نفرت انگیزی ملک دشمنی اور تفریق کے مظہر ہیں تو فضل الرحمن، اختر مینگل، انس نورانی و اچکزئی کا صوبائیت، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ حتیٰ کہ قومی زبان کی تضحیک، مزار قائد پر جوتوں سمیت دھماکہ چوکڑی بھی حب الوطنی میں دراڑ ڈالنے کے مترادف ہے۔ ایسے لوگوں کو میر جعفر و میر صادق سے ہی تشبیہہ دی جا سکتی ہے۔
پی ڈی ایم کا کوئٹہ میں جلسہ گوجرانوالہ و کراچی کے جلسوں سے زیادہ ریاستی اداروں خصوصاً فوج کے سربراہ، سی پیک اور اعلیٰ ترین عدلیہ کےخلاف ہذیان بکنے کے موجب ہوا۔ عوام کی پریشانیوں اور مسائل کے حل کی آڑ میں جمہوری نظام کی شفافیت کیلئے جدوجہد کے نام پر منعقدہ اس جلسے میں جس طرح نوازشریف، مریم نواز اور بلوچ قوم پرستوں نے اظہار خیال کیا وہ نہ ہی جمہوریت کے مفاد میں ہے اورنہ ہی مہنگائی، بیروزگاری اور امن و امان سے محرومی میں جکڑے ہوئے عوام کی نجات کیلئے کوئی واضح عمل سامنے آیا اس کے برعکس ریاست مملکت کےخلاف دشنام طرازی اور دشمنوں کا ایجنڈا حاوی رہا، نہ صرف یہ بلکہ ہمارے قومی رہنماﺅں اور بانیان کے قومی تشخص کی تضحیک کی عملی تصویر بھی سامنے آئی۔ مریم نواز کے پوسٹرز پر اس کی تصویر کےساتھ مادر ملت زندہ باد کا نعرہ اس کی واضح مثال ہے۔ اسی طرح فضل الرحمن کی عساکر پر تنقید اور فوج کو آنکھ کی مثال پر قائد قدم بڑھاﺅ ہم تمہارے ساتھ ہیں کے نعرے کُھلے طور سے بغاوت کی نشاندہی تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنی بد اعمالیوں اور مودی کی زبان بولنے والے نوازشریف کو اپنی سیاسی حیثیت اور مستقبل کا واضح ادراک ہو چکا ہے اور اس ادراک کے پیش نظر وہ ہر ایسا اقدام کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے جو اسے آنے والے بُرے وقت سے بچا سکے۔ مولوی، ڈیزل، نواز لیگ کے دل لبھانے والے مستقبل کے وعدوں کے سحر میں مبتلا ہے۔ اسی لئے ان دونوں نے اپنی کشتیاں جلا دی ہیں، اور تخت یا تختہ پر آمادہ ہیں۔ ہم نے گزشتہ ایک کالم میں نشاندہی کی تھی کہ زرداری ایک زیرک سیاستدان ہے اور وہ سندھ میں اپنی پارٹی کی حکومت اور ملک میں سیاسی اسٹینڈنگ کو متاثر نہیں کرے گا۔ کوئٹہ جلسہ اور آئی جی سندھ کے معاملہ پر بلاول بھٹو کی اسٹریٹجی اسی گیم کی عکاس رہی۔
سیاست اور برتری کے اس کھیل میں حکومت کی کارکردگی بھی محض نعروں، دھمکیوں اور بڑھکوں تک ہی محدود ہے۔ ٹوئیٹس، تقریروں اور ٹی وی پروگراموں میں بیٹھ کر مخالفین کی دھجیاں بکھیرنے کو اور اُلٹے سیدھے اقدامات کر کے وہ اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ لاہور میں وزیراعظم آزاد کشمیر و سابق جرنیلوں سمیت 42 افراد کےخلاف بغاوت کی ایف آئی آر، سندھ میں آئی جی کو بزور اٹھوانے، قاضی فائز عیسیٰ کےخلاف بلا تحقیق و شواہد ریفرنس جیسے اقدامات، وزیراعظم بورس جانسن سے مل کر نوازشریف کو واپس لانے کا دعویٰ، کسی کونہیں چھوڑوں گا کاوظیفہ اور عوام کو لاحق مسائل کو ختم کرنے کے محض دعوے اور کوئی ٹھوس عملی اقدام نہ کرنا اس کی مثالیں ہیں۔ محض دعوﺅں اور نعروں سے حکومتیں نہیں چلا کرتی ہیں۔ بہتر انتظامی اقدامات، عمال پر مضبوط کنٹرول اور بہتر صلاحیتوں کو بُروئے کار لانے کےساتھ سیاسی ربط و ڈائیلاگ کامیابی کی کلید ہیں۔ کپتان کے 22 ماہ کے دور حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ اقتدار میں پہلی انٹری اور وزیراعظم کے فطری مزاج کی بدولت موجودہ حکومت اس حوالے سے ڈیلیور کرنے میں کامیاب نہیں ہے۔ بگاڑ بڑھتا جا رہا ہے اور عوام میں اضطراب و مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ میڈیا اپنی تمام تماشہ بازی سے حکومت مخالف اور اپوزیشن مخالف کھیل میں مصروف ہے۔
معاملات جس حد تک جا چکے ہیں، نہ صرف عوام کیلئے پریشانیوں میں اضافہ بلکہ ملک کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کیلئے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ ہماری عرض یہ ہے کہ بس اب بہت ہو چکا ہے۔ گزشتہ دنوں میں ہی درجنوں فرزندان وطن شہادت کا نذرانہ دے چکے ہیں۔آج پشاور میں مسجد سے متصل مدرسہ زبیریہ پر دہشت گردی سے 8شہادتیں ہوئیں ہیں۔100سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ دشمن قوتیں اپنی سرگرمیاں تیز کر رہی ہیں۔ سپہ سالار نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ ملک کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں اور عوام کی بہبود کیلئے ہر اقدام کیاجائےگا۔ وقت آچکا ہے کہ ملکی سلامتی اور عوام کی بھلائی کیلئے واضح بڑا فیصلہ کیا جائے۔ ہمارے عوام کو بھی اب جاگنا ہوگا کہ آزمائے ہوئے سیاسی جفادریوں کے تماشے سے باز رہ کر بے نتیجہ سیاسی عدم استحکام سے جان چھڑا کر خود کو لاحق دُشواریوں سے نکلنے و ملکی حالات کی بہتری کیلئے ان قوتوں کا ساتھ دیں جو اس کی ضامن ہیں۔ بس اب بہت ہو چکا ہے حالات کی بہتری اور قومی مفاد کی خاطر قوم کی بیداری کا یہی وقت ہے۔
٭٭٭