شیخ حسینہ نے پاکستانی ہائی کمشنر کی تذلیل کردی

0
133
حیدر علی
حیدر علی

 

حیدر علی

جب بھی کسی مرد افسر کی شامت اعمال آتی ہے تو وہ کسی خاتون وزیراعظم سے جاکر ملاقات کرلیتا ہے، خاتون وزیراعظم کو مرد افسر کو یہ باور کرانا پڑتا ہے کہ تم مرد ہو تو کیا ہوا، میرے اختیارات تم سے بہت زیادہ ہےں تمہیں یک جنبش قلم نوکری سے نکلواسکتی ہوں یا نہیں تو خاتون وزیراعظم مرد افسر پر اِس طرح برس پڑتی ہیں جیسے مونسون کی بجلی گر پڑی ہو کچھ ایسی ہی کیفیت بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ کی بھی ہوگئی تھی، یہ امرسوچ و فکر سے بالاتر ہے کہ ڈھاکہ بنگلہ دیش میں مقیم پاکستان کے ہائی کمشنر عمران احمد صدیقی کو کیا ضرورت پڑ گئی تھی کہ وہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ سے ملاقات کیلئے اُن کی رہائش گاہ گنا بھبن چلے گئے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ شیخ حسینہ نے صبح کے ناشتے میں چار انڈے کا آملیٹ کھالیا ہویا نہیں تو رات میں ایک مُسّلم فرائی ہلسا مچھلی ہضم کر لی ہو اور اُسکی گرمی اُن کے دماغ تک پہنچ گئی ہو، بہرکیف وزیراعظم شیخ حسینہ اپنے پاکستانی ہائی کمشنر عمران احمد صدیقی پر بُری طرح برس پڑیں۔ اُنہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش پاکستان کے اُن مظالم کو نہ ہی فراموش اور نہ ہی معاف کر سکتا ہے جو اُس نے1971 ءمیں بنگلہ دیش پر ڈھائے تھے،بنگلہ دیش کے پرائم منسٹر ہا¶س نے اِس کی پریس ریلیز بھی جاری کردی جو وہاں کے سارے اخبارات کی سرخی بن گئی، بھارتی سفارت خانہ نے تو اِس کی خوشی میں ایک رنگا رنگ پارٹی کا بھی اہتمام کردیاتاہم بنگلہ دیش کے عوام نے وزیراعظم شیخ حسینہ کے اِس بیان کو کسی گرمجوشی کے ساتھ نہیں سراہا، بنگلہ دیش کے ”دی ڈیلی سٹار“ کے آن لائن ایڈیشن میں یہ خبر سرخی کے ساتھ شائع ہوئی ، لیکن اِس کے ردعمل میں کوئی بھی کمنٹ سامنے نہ آیا، میں نے اپنے کمنٹ سے بنگلہ دیش کے عوام کو باخبر کردیا، میں نے یہ تحریر کیا کہ ” اگر بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ کا موڈ اتنا زیادہ ہی خراب تھا، اُنہیں رات میں نیند نہ آسکی تھی تو اُنہیں سونے سے قبل دودھ کا ایک گلاس پی لینا چاہیے تھا۔1971ءکا سانحہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، اِس سانحہ میں لاکھوں محب وطن پاکستانی جن میں میرے دوست اور رشتہ دار بھی شامل تھے جو بنگلہ دیش کے کے مختلف شہروں ڈھاکہ، چاٹگام، کھلنا، بھیرب بازار، میمن سنگھ، سنتا ہار، سید پور میں مقیم تھے، مکتی باہنی کے ہاتھوں گاجر مولی کی طرح کاٹ دیئے گئے تھے۔ میں بھی جب اُن کے بارے میں سوچتا ہوں تو میری آنکھیں آبدیدہ ہو جاتیں ہیں“اِس حقیقت میںکوئی شک نہیں کہ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ اِن دنوں گوناگوں مسائل سے دوچار ہیں، اُنہوں نے اپنے والد بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمن کے مجسموں کو بنگلہ دیش کے طول وعرض میں نصب کرنے کا ایک معرکتہ الآرا اقدام اٹھایا تھا جس میں اُنہیں منھ کی کھانی پڑی اور بنگلہ دیشی عوام نے اِسے یکسر مسترد کردیا، گذشتہ جمعہ کے دِن مدرسہ کے معلم اور طلبا کے جوائنٹ وینچر سے کشتیا شہر کے پانچ چوک پر زیر تعمیر بنگلہ بندھو شیخ مجیب لرحمن کے مجسمہ کو مسمار کر دیاگیا، اِس حادثہ پر تبصرہ کرتے ہوے کشتیا میونسپلٹی کے ایک انجینئر نے کہا کہ ”مجسمہ پایہ تکمیل کے مراحل میں تھا کہ اچانک شر پسندوں نے مجسمہ کے دائیں ہاتھ کو توڑ دیا، چہرے پر ہتھوڑے کی ضرب سے اُسکی حلیہ بگاڑ دی، بائیں ہاتھ پر بھی اُنہوں نے ہتھوڑے مار کر اُسے تہس نہس کردیا۔اِس واقعہ پر عوامی لیگ اور اُسکی حمایتی تنظیموں میں ایک کہرام سا مچ گیا، اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ بنگلہ بندھو کے سارے مجسموں کی پولیس نگرانی کیا کرے،
اُ نہوں نے مجسمہ کو نقصان پہچانے کا سارا الزام اسلام پسند تنظیموںکے سر تھونپ دیا ہے تاہم بنگلہ دیش کی سب سے طاقتور اسلامی تنظیم حفاظت اسلام کے سربراہ جنید بابو نگری نے اِن الزامات کی تروید کی ہے، اُنہوں نے کہا کہ وہ صرف مجسمہ کی تعمیر پر رائے زنی کی تھی اور وہ آج بھی اپنے اِس موقف پر قائم ہیں کہ مذہب اسلام مجسموں کی تعمیر ات کی اجازت نہیں دیتاہے تاہم ہمارے اراکین بنگلہ بندھو کے مجسمہ کو توڑنے یا نقصان پہنچانے کی کاروائی میں ملوث نہیں ہیںجنہوں نے یہ کام کیا ہے حکومت اُنہیں تلاش کرے معلوم ہوا ہے کہ پولیس نے پانچ چوک پر نصب کیمرے کی مدد سے چار افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں سے دو مدرسہ کے معلم اور دو طالب علم ہیں۔ریکارڈ کی ہوئی ویڈیو میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ معلم مجسمہ توڑنے میں طلبا کی رہنمائی کر رہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بنگلہ دیش میں بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمن کا مجسمہ محفوظ رہ سکتا ہے یا نہیں؟ ایک سو مجسموں کی نگرانی کیلئے پانچ سو پولیس نفری کی ضرورت ہے، کیا بنگلہ دیش کی حکومت اِسکے اخراجات کو برداشت کرنے کی متحمل ہو سکتی ہے؟
پاکستانی ہائی کمشنر عمران احمد صدیقی نے شیخ حسینہ کو وزیراعظم عمران خان کے نیک خواہشات کا پیغام پہنچایا اور اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم عمران خان یہ جاننے کے بہت زیادہ متمنی ہیں کہ بنگلہ دیش کس طرح معجزانہ طور پر حیران کن معاشی ترقی کی ہے۔ ماہرین نے اِس موضوع پر رائے زنی کرتے ہوے بارہا کہا ہے کہ بنگلہ دیش کی ترقی کا راز یہ ہے کہ اُس نے اپنی شرح آبادی کو کنٹرول میں رکھا ہے جبکہ پاکستان میں شرح آبادی میں شتر بے مہار اضافہ ہوتا جارہا ہے، دوئم بنگلہ دیش کی گارمنٹ انڈسٹری اور جوٹ وہاں کی معیشت کیلئے سونے کی کانیں ہیں، جن کی برآمد سے اُس نے 2019 ءمیں 38 بلین ڈالر کا زرمبادلہ کمایا تھا جبکہ اُسی سال پاکستان کے بر آمد سے آمدنی صرف 20 بلین ڈالر پر اٹک کر رہ گئی تھی، آخر ہم گارمنٹ کی صنعت اور زراعتی پیداوار کو ترقی کیوں نہیں دے سکے ہیں؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here