سادہ شادیاں!!!

0
121
رعنا کوثر
رعنا کوثر

 

رعنا کوثر

جیسا کے ہم سب جانتے ہیں پچھلے چند مہینے ہم سب پر بہت بھاری رہے ہیں۔COVID-19نے نیا سال شروع ہوتے ہی پوری دنیا میں اپنے قدم جما لیے اور سب کو ہلا ڈالا۔پہلے تو لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آیا کے یہ کیا ہو رہا ہے۔آہستہ آہستہ اس کے مضر اثرات سامنے آئے اور پھر ہر طرف خوف وہراس پھیل گیا ہر کوئی چاہتے ہوئے بھی اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے بارے میں سوچنے لگا اور ہر طرح سے اس کے خراب اثرات سے بچنے کے لیے تدابیر کرنے لگا۔ان تدابیر میں جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ آپ اس سے کیسے پچیس وہیں انسانوں سے ایک دوسرے سے نہ ملنے کی ہدایات بھی ہیں۔اب اس کا توڑ نکل آیا ہے اور انشاءاللہ جلد ہی ویکسین پوری دنیا میں اپنا اثر کرےگی۔اور دنیا سے جلد ہی امید ہے کہ یہ وائرس چلا جائے گا۔مگر کیا اس وبا کے ٹائم پر لوگوں نے اپنے اخلاق درست کرلیے یا مزید خراب ہوگئے۔ایک اچھی بات یہ سامنے آئی کے لوگوں نے ہر فنکشن شادی، سالگرہ، بے بی شاور وغیرہ زوم پر کہ لیے پہلے تو یہ سب انتہائی روکھا پیھکا لگا مگر بعد میں یہ احساس ہوا کے روپیہ کی انتہائی بچت ہے تو لوگوں نے لڑکے لڑکیوں کی شادی بہت جلدی میں بھی کردی بلکہ گھبرا کر جو رشتہ سامنے آیا وہیں کردی یہ احساس تو بہت طمانیت والا تھا کے شادی سادگی اور سکون سے کردی مگر یہ بھی سوچنا ہے کہ اس جلد بازی میں کسی کے ساتھ زیادتی تو نہیں ہو گئی۔کسی لڑکی کی پڑھائی ادھوری رہ گئی کسی کے لیے زیادہ چھان بین نہیں کی گئی۔یہ مانا کے سادگی سے شادی بیوہ بہت اچھے ہیں۔مگر کیا ہم دھوم دھام سب اس لیے کرتے تھے کے ہمارے اوپر معاشرے کا دباﺅ تھا۔پانچ سو لوگوں سے کم اگر لوگ جمع ہوتے تھے تو شادی پھیکی لگتی تھی۔خاندان کو بلانا تو ایک اچھا فیصلہ ہوتا ہے۔مگر ہر اس انسان کو بلایا جاتا تھا جس کو ہم تھوڑا سا بھی جانتے تھے۔یہی ایک غیر ضروری خرچا تھا۔پھر دولہا والے بھی برات میں ہر اس آدمی کو لے آتے تھے جو کے دور دراز کا بھی رشتہ دار ہوتا تھا۔شام خرچا دلہن والوں کے کھاتے میں ہوتا تھا۔ولیمہ میں دلہن والے بدلے کے طور پر اپنے تمام رشتہ داروں کو لے جاتے تھے۔پھر مایوں مہندی میں بھی تمام رشتہ داروں دوستوں کو لے کر دلہن والوں کے ہاں پہنچ جاتے تھے۔یہی غیر ضروری خرچے دلہن والوں کو پریشان کرتے تھے۔لڑکیاں اور لڑکی والے دباﺅ میں ہوتے تھے۔لہذا جیسے ہی وباءاس دنیا میں آئی گھر والوں نے بہترین اور سنہرا موقع جانا اور لڑکیوں کو شادی کے لیے مجبور کردیا میں ان لڑکیوں کی بات نہیں کر رہی جن کے رشتے لگے ہوئے تھے شادی کی تاریخ طے تھی میں ان کے بارے میں بات کر رہی تھی جو کے ابھی شادی کو تیار نہ تھیں۔مگر گھر والوں نے موقع اچھا جانا اور اس موقع پر آیا ہوا کوئی بھی رشتہ قبول کر لیا تاکے خرچا بچے۔اب تو رشتہ دار بھی برا نہیں مانتے اگر انہیں نہ بلایا جائے۔پہلے تو شادی کے وقت والدین اگر کسی کو نہیں بلاتے تھے تو بہت باتیں سننا پڑتی تھیں۔
ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں سوچ رہی ہوں کے کیا ہم شادی کے یہ خرچے محض رسم نبھانے لوگوں کو دکھانے یا پھر بوجھ اور دباﺅ میں آکر کرتے تھے۔جب خوف وہراس ہمیں سادگی سکھا سکتا ہے۔تمام جان پہچان والوں کو یہ سمجھ دے سکتا ہے کے کوئی بات نہیں مجبوری ہے وباءکا زمانہ ہے۔تو یہی سمجھ اچھے حالات میں کیوں نہیں آسکتی کے خرچا بہت ہوتا ہے اس لیے کہ مہمان بلائے ہوں گے یا مایوں مہندی نہیں کی تو کوئی بات نہیں۔ہر بات میں ملنے جلنے والوں کی نکتہ چینی ہمیں ہر طرح کے خرچے پر اکساتی رہتی ہے۔ورنہ ہم سادگی سے ہی کام کرنے میں سکون محسوس کرتے ہیں۔اگر ایسا نہ ہوتا تو آج کل لوگ شادی کے بعد یہ نہ بول رہے ہوتے کے بھئی بڑا سکون رہا صرف گھر والے آئے اور شادی ہوگئی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here