دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے، آخر اس درد کی دوا کیا ہے : مرزا غالب کی 152 ویں برسی

0
189

اردو ادب کی شاعری اور نثر کو نئے رجحانات سے روشناس کروانے والے شاعر مرزا غالب کی 152 ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔

مرزا غالب کا اصل نام اسد اللہ بیگ تھا، وہ 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب اردو کے ایک منفرد شاعر تھے ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ زندگی کے مشاہدات، حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور اسے بڑی ہی سادگی سے عام لوگوں کی سمجھ بوجھ کے لیے بیان کردیتے تھے۔

غالب کی شاعری میں انسان اور کائنات کے مسائل کے ساتھ محبت اور زندگی سے وابستگی بھی بڑی شدت سے نظر آتی ہے۔ غالب کی تحریروں نے اردو شاعری کے دامن کو وسعت دی۔ غالب نے اردو میں جو نئی اصناف متعارف کروائیں اور جو خطوط لکھے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور وہ مقروض ہو گئے۔

مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے 1850ء میں قلعہ کی ملازمت اختیار کی اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور ہوئے، جس کا ماہانہ معاوضہ ان کے لیے 50 روپے مقررکیا گیا۔ مرزاغالب نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا، غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔

غالب نے کبھی بھی انگریز ثقافت کی تعریف نہیں کی البتہ انھوں نے اپنی شاعری اور نثر سے سائنسی دریافتوں کے حوالے سے مختلف مثالیں بیان کیں جنھیں اگر اپنا لیتے تو ان کا شمار دنیا کی بہترین قوموں میں ہوتا۔

آخری عمر میں غالب شدید بیمار رہنے لگے اور پھر 15 فروری 1869ء کو خالق حقیقی سے جاملے۔ پاکستان میں غالب کی زندگی پر دستاویزی فلم بھی بنائی گئی جبکہ پاکستان میں غالب پر ڈراما بھی بنایا گیا جس میں قوی خان نے غالب کا کردارا دا کیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here