”مسئلہ فلسطین”

0
228
ماجد جرال
ماجد جرال

فلسطین کے مسئلے پر عالمی سطح پر برسوں سے جاری کشمکش ایک نئے موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ حالیہ دنوں میں برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا کی حکومتوں نے اس بات پر اصولی اتفاق کیا ہے کہ فلسطین کو بطور آزاد ریاست تسلیم کیا جائے۔ یہ فیصلہ اگر عملی شکل اختیار کرتا ہے تو مشرقِ وسطی کی سیاست ہی نہیں بلکہ عالمی تعلقات کے نئے خد و خال بھی مرتب ہوں گے۔ تینوں ممالک کی یہ پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت اور ان کی جدوجہد کو اب مزید نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔اس سے قبل دنیا کے کئی ممالک فلسطین کو تسلیم کرچکے ہیں، مگر مغربی بلاک خصوصا یورپ اور امریکہ کے قریبی اتحادی طویل عرصے سے اس معاملے پر محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے تھے۔ برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا کی جانب سے اس نئی لچک کا اظہار دراصل عالمی دبا اور خطے میں بڑھتی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نتیجہ ہے۔ فلسطین میں جاری اسرائیلی کارروائیوں، غزہ کی بدترین صورتحال اور لاکھوں بے گھر ہونے والے شہریوں نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ ممالک بھی فلسطینی ریاست کے قیام کو ایک پائیدار امن کی ضمانت سمجھنے لگے ہیں جو ماضی میں صرف زبانی ہمدردی تک محدود تھے۔اس فیصلے کے کئی پہلو ہیں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ فلسطین کو عالمی سطح پر مزید سفارتی پذیرائی ملے گی۔ اگر برطانیہ اور کینیڈا جیسے ممالک فلسطین کو تسلیم کرتے ہیں تو یورپی یونین کے دیگر ممالک پر بھی دبا بڑھے گا کہ وہ اپنی پالیسی پر نظرثانی کریں۔ آسٹریلیا کی شمولیت اس لیے اہم ہے کہ وہ بحرالکاہل خطے میں امریکہ کا قریبی اتحادی ہے۔ اگر یہ تینوں ممالک عملی اقدامات کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ امریکہ کو بھی اپنی پالیسی پر سوچنا پڑے، اگرچہ واشنگٹن اب تک اسرائیل کے غیر مشروط دفاع کے مقف پر قائم ہے۔
یہ پیش رفت اسرائیل کے لیے یقینی طور پر ایک بڑا سفارتی چیلنج بنے گی۔ تل ابیب نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے سے امن عمل کو نقصان پہنچے گا۔ مگر اب عالمی رائے عامہ اس کے برعکس سمت اختیار کر رہی ہے۔ عالمی ادارے، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی مسلسل یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ فلسطینی عوام کو ان کے بنیادی حقوق دیے جائیں۔ مغربی طاقتوں کے اس فیصلے کے بعد اسرائیل پر دبا میں مزید اضافہ ہوگا کہ وہ مذاکرات کی میز پر واپس آئے اور دو ریاستی حل کی جانب کوئی سنجیدہ قدم اٹھائے۔پاکستان سمیت مسلم دنیا کے بیشتر ممالک برسوں پہلے ہی فلسطین کو تسلیم کرچکے ہیں۔ اب اگر مغربی دنیا بھی اسی سمت بڑھتی ہے تو فلسطینی عوام کی جدوجہد کو نئی تقویت ملے گی۔ ساتھ ہی یہ اقدام عالمی سطح پر انصاف، مساوات اور انسانی حقوق کی بالادستی کا عملی مظہر بھی ہوگا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف سفارتی اعلان کافی نہیں ہوگا۔ فلسطین کو تسلیم کرنے کے بعد ان ممالک پر لازم ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے فورمز پر عملی اقدامات کریں، اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے دبا ڈالیں اور فلسطینی عوام کی بحالی کے لیے مالی و انسانی مدد فراہم کریں۔عالمی سیاست میں ایسے لمحات کم ہی آتے ہیں جب طاقتور ممالک انصاف کے حق میں کھڑے ہوں۔ برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا کا یہ فیصلہ اگر حقیقی اقدامات میں ڈھلتا ہے تو نہ صرف فلسطین کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی بلکہ مشرقِ وسطی میں پائیدار امن کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے۔ دنیا بھر کے امن پسند حلقے اس پیش رفت کو امید کی کرن سمجھ رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا یہ ممالک اپنے اعلان پر کس حد تک قائم رہتے ہیں اور عملی طور پر فلسطینی عوام کے لیے کون سے اقدامات کرتے ہیں۔
بہرحال یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ فلسطین کا مسئلہ اب عالمی ایجنڈے سے پس پردہ نہیں ہوسکتا۔ انگلینڈ، آسٹریلیا اور کینیڈا کا اصولی اتفاق دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ انصاف کی آواز کو زیادہ دیر دبایا نہیں جاسکتا۔ فلسطینی عوام کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں اور اب وقت آگیا ہے کہ دنیا انہیں ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرے۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here