چیئرمین سینیٹ الیکشن سے متعلق جسٹس فائز کے دلچسپ ریمارکس

0
91

اسلام آباد:

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس فائز عیسی نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہ ہونے پر اظہار برہمی کیا ہے۔

سپریم کورٹ میں بلدیاتی انتخابات کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس فائز عیسی نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہ ہونے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ملک چلانے کی اہل نہیں ہے یا فیصلے کرنے کی؟ دو ماہ سے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس کیوں نہیں ہوا؟۔

جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ پاکستان چلانے کی بنیاد ہی مردم شماری ہے، مردم شماری 2017 میں ہوئی تھی چار سال گزر گئے، کیا اس کے نتائج جاری کرنا حکومت کی ترجیح نہیں؟ تین صوبوں میں حکومت کے باوجود کونسل میں ایک فیصلہ نہیں ہو رہا، عدالتی حکم کے باوجود اجلاس ملتوی ہونا آئینی ادارے کی توہین ہے، کوئی جنگ تو نہیں ہو رہی تھی جو اجلاس نہیں ہوسکا، اب تو ویڈیولنک پر بھی اجلاس ہوسکتا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس 24 مارچ کو ہوگا، حساس معاملہ ہے حکومت اتفاق رائے سے فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔

جسٹس فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ  مشترکہ مفادات کونسل کی رپورٹ کو خفیہ کیوں رکھا گیا ہے؟، اچھا کام بھی خفیہ ہو تو شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں، کیا ملک میں اس انداز میں حکومت چلائی جائے گی؟ عوام کو علم ہونا چاہیے کہ صوبے کیا کر رہے ہیں وفاق کیا، حیران کن ہے مشترکہ مفادات کونسل سے 2017 کی مردم شماری کی منظوری یا نا منظوری نہیں ہوئی، کونسل آئینی باڈی ہے، مردم شماری کا معاملہ چار سال سے مشترکہ مفادات کونسل میں زیر التواء ہے، کونسل مردم شماری کے معاملہ پر ضروری اقدامات اٹھائے اور اجلاس  مردم شماری کے معاملہ کو ترجیح دیں۔

گورنر پنجاب پاکستانی ہیں یا باہر سے درآمد کیے گئے ہیں

جسٹس قاضی فائز عیسی نے پنجاب لوکل گورنمنٹ آرڈیننس لانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق حکومت کی جانب سے نیا بلدیاتی قانون لانے سے پیچیدگی پیدا ہوگئی ہے، سادہ الفاظ میں پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات کروانا ہی نہیں چاہتی، کیا گورنر پنجاب 374 ممبران پنجاب اسمبلی سے زیادہ اہل ہے،  کیا ہم دوبارہ برطانوی راج میں داخل ہوچکے ہیں، ایک بندے کی خواہش پر پوری پنجاب اسمبلی کو بائی پاس کیا گیا، کیا گورنر پنجاب وائسرائے ہیں، کیا ہ عوام کے نمائندے ہیں یا صدر مملکت کے منتخب کردہ ہیں،  گورنر پنجاب پاکستانی ہیں یا باہر سے درآمد کیے گئے ہیں، کیا وہ دوہری شہریت کے حامل ہیں۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ گورنر پنجاب وزیراعظم کے مشورے پر صدر مملکت کی جانب سے تعینات کیے گئے ہیں، ان کی پیدائش پاکستان کی ہے تاہم انھوں نے زندگی کا کچھ حصہ برطانیہ میں گزارا ہے تاہم اب برطانوی شہریت ترک کر دی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ گورنر پنجاب کو بتائیں کہ وہ کوئی سیاسی بیان نہیں دے سکتے، وہ سیاسی سرگرمی بھی نہیں کر سکتے، پنجاب حکومت الیکشن کمیشن کے تابع ہے، الیکشن کمیشن کے پاس وہی اختیارات ہیں جو سپریم کورٹ کے پاس ہیں، مجھے تعجب ہو رہا ہے کہ پنجاب حکومت کیا کر رہی ہے، اس سے اپوزیشن برداشت نہیں ہوتی، اب ہ ایسا کرے کہ چار ماہ کے بعد نیا آرڈیننس لے آئے، پنجاب حکومت نے دانستہ پنجاب کے 12 کروڑ عوام کو بنیادی مسائل کے حل سے محروم کیا ہے، لوگوں کے بنیادی مسائل سٹرک اور پانی وغیرہ کے ہوتے ہیں، کیا گورنر پنجاب پڑھے لکھے آدمی ہیں، جو عمل گورنر پنجاب نے کیا وہ وائس رائے بھی نہیں کرتے تھے، پنجاب کے 12 کروڑ عوام کو آپ نے محروم کر دیا ہے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ  اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی حکومت کا انتخابی وعدہ اور منشور تھا۔ تاہم ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو پی ٹی آئی منشور کا تذکرہ مہنگا پڑ گیا۔

جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ پہلی بار دیکھا کوئی سرکاری وکیل سیاسی منشور کا حوالہ دے رہا ہے، کیا حکومت اور سیاسی جماعت میں کوئی فرق نہیں رہا؟ آئین کو کچھ تو عزت دیں، آمروں نے آئین کو اتنا پامال کیا شاید آپکی نظر میں اسکی عزت نہیں رہی، منشور اور انتخابی وعدے سیاسی جماعتوں کے ہوتے ہیں، حکومت کا واحد منشور صرف آئین ہوتا ہے۔

چیئرمین سینیٹ

کیس کے دوران چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا تذکرہ ہوا۔ جسٹس فائز نے پوچھا کہ چیئرمین سینیٹ کا الیکشن کرانے والا بندا الیکشن کمیشن کا نہیں لگ رہا تھا، کیا سینیٹ چیئرمین کا انتخاب الیکشن کمیشن نے کرایا؟۔

ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کا انتخاب سینیٹ خود کراتی ہے، آرٹیکل 60 کے تحت سینیٹ کا اختیار کہ چیئرمین منتخب کرے۔

جسٹس فائز نے کہا کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن چیئرمین سینیٹ انتخاب نہیں کرائے گا؟۔کیا سینیٹ رولز میں لکھا کے کہ الیکشن کمیشن کا تعلق نہیں؟ چلیں اس کو ابھی رہنے دیں۔

سپریم کورٹ نے پنجاب میں بلدیاتی حکومت کی تحلیل اور بلدیاتی الیکشن کیس کی فائل چیف جسٹس کو بھجواتے ہوئے درخواستوں پر سماعت کیلئے تین رکنی بنچ تشکیل دینے کی سفارش کی۔

عدالت نے کہا کہ جس انداز میں آرڈیننس جاری ہو رہے ہیں خاموش نہیں بیٹھ سکتے، آئین پر عمل اور عوام کی مرضی تسلیم نہ کرکے آدھا ملک گنوا دیا، رجسٹرار آفس انتخابات سے متعلقہ مقدمات جلد مقرر کرے، اہم نوعیت کے مقدمات جلد نہ نمٹانے سے عدلیہ کی ساکھ خراب ہو رہی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here