کیا امریکہ محفوظ ہے ؟

0
104
مجیب ایس لودھی

مجیب ایس لودھی، نیویارک

دنیا بھرمیں جرائم کی شرح کو قابو میں رکھنے کے لیے اسلحے کی عام لوگوں تک رسائی کو بہت پچیدہ اور منصفانہ بنایا جاتا ہے تاکہ جرائم کی شرح کو قابو میں رکھا جائے لیکن امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں اسلحے کی خریداری ایک پارٹی کرنے کے مترادف ہے یعنی اگر آپ کا موڈ فائرنگ کرنے کا ہو رہا ہے تو ڈالر ز جیب میں ڈالیے اور کسی بھی اسلحہ دکان سے آٹو میٹک ، جدید اسلحہ خریدیئے اور جہاں دل کر ے چلا دیں ، اسلحے کی اس طرح کھلے عام ، بغیر پوچھ پرتیت فروخت کی وجہ سے امریکہ میں جرائم خطرناک حد تک بڑھ رہے ہیں ، بات یہاں تک محدود نہیں ہے نفرت آمیز واقعات کی جنگ اب سیاہ اور سفید فام سے نکل کر ایشیائی تارکین تک پھیل چکی ہے ، تارکین کا شہر کہلانے والے نیویارک میں اس وقت ایشیائی کمیونٹی کے خلاف نفرت آمیز واقعات کی بھرمار ہے ، ہر دوسرے دن کسی نہ کسی ایشیائی شہری کو تشد د اور نفرت آمیز واقعہ کا نشانہ بنایا جا تا ہے ، ہر روز کسی خاتون یا مرد کے گوروں کے ہاتھوں پٹتے ویڈیوز سوشل میڈیا کی زینت بن رہی ہیں ،ایشیائی خواتین اور کمیونٹی پرتشدد واقعات سے گھبراکر گھروں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔
حال ہی میں 21سالہ نوجوان احمد الالیوی جس نے دو ہفتے پہلے اٹو میٹک گن خریدی تھی نے کولاراڈو کی کنگ سپر مارکیٹ میں فائرنگ کرتے ہوئے متعدد افراد کو موت کے گھاٹ اتاردیا جس میں زیادہ تر گورے افراد شامل تھے جبکہ کئی زخمی بھی ہوئے ،پولیس کے مطابق فائرنگ کا نشانہ بننے والوںمیں 51سالہ ایرک ٹالے ، 20 سالہ ڈینی سٹروک ، 23سالہ نیون سٹانسک ،25سالہ ریکی اولڈز، 49سالہ ٹرالونا ،59سالہ سوزانی فاﺅنٹین ، 51سالہ کیون ماہونے ، 62سالہ لائن مرے اور 65سالہ جوڈی وٹرز شامل ہیں ،پولیس کی جانب سے فائرنگ کرنے والے ملزم پر قتل کی دس دفعات لگائی گئی ہیں ، ملزم کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ مسلمان ہوسکتا ہے اور اگر ایسا ہے تو ایشیائی کے ساتھ مسلم تارکین کے خلاف بھی ایک نیا جنگی محاذ کھڑا ہو جائے گا یعنی ایشیائی کے ساتھ مسلمان تارکین کو بھی نفرت آمیزاور پرتشدد واقعات کا سامنا کرنا پڑے گا جوکہ ملک کو مزید انتشار اور انارکی کی طرف لے کر جائے گا ۔ہو سکتا ہے کہ اگلا حملہ کسی عبادت گاہ یا مسجد میں کیا جائے تاکہ مسلمز کمیونٹی کو نشانہ بنایا جا سکے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ بائیڈن حکومت اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرے اور ملک میں اسلحہ خریداری کے طریقہ کار کو پچیدہ اور قواعد و ضوابد کے مطابق بنایا جائے یعنی اتنی تفصیلات تو اسلحہ ڈیلرز کو ضرور حاصل کرنی چاہئے کہ کوئی ان سے اسلحہ کس مقصد کے لیے خرید رہا ہے اور اس سلسلے میں سیکیورٹی حکام کو بروقت آگاہی بھی دی جانی چاہئے تاکہ وہ اس شخص کی نگرانی کریں ۔
ٹرمپ کے دور حکومت میں معاشرے میں تارکین اور کالوں کے خلاف نفرت آمیز واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ، بائیڈن نے اس وقت یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ معاشرے سے نفرت کے ناسور کو ختم کرکے دم لیں گے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ بائیڈن حکومت کسی بھی نفرت آمیز واقعے کے بعد اپنا ردعمل ظاہر کرے اور اس کی پرزور مذمت کرے تاکہ حکومت کی پالیسی لوگوں کے سامنے آ سکے ، آج تک ایشیائی کمیونٹی یا دیگر تارکین کے خلاف نفرت آمیز واقعات پر حکومتی ردعمل نہ ہونے کے برابررہا ہے جس سے عوام عدم تحفظ کا شکار ہوگئے ہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے ان کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا جا رہا ہے ۔بائیڈن حکومت کو چاہئے کہ اسلحہ کے قوانین کو مزید سخت بنائے تاکہ آئے روز قیمتی جانی نقصان سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے ، اس کے ساتھ سیکیورٹی اداروں کو اس سلسلے میں مزید سخت ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ ہر واقعے کے بعد ایف بی آئی کا ایک ہی بیان سامنے آتا ہے کہ ملک محفوظ ہے جوکہ بالکل درست نہیں ہے ، اگر ملک محفوظ ہو تو ایسے واقعات کیوں کر رونما ہوں ، اس تناظر میں میڈیا اور عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے کہ وہ معاشرے میں امن کو فروغ دیں ناکہ لوگوں کو نفرت اور تشدد پر اُکسائیں ، ادارہ پاکستان نیوز ایشیائی کمیونٹی کیخلاف نفرت آمیز واقعات کی پرزور مذمت کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ بائیڈن حکومت ان واقعات کی روک تھام میں کلیدی کردار ادا کرے گی ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here