”ہاں میں باغی ہوں”

0
820
رمضان رانا
رمضان رانا

ء1971 کا سوگوار سال رواں تھا کہ جب راقم الحروف اسلامیہ کالج کراچی کی طلباء یونین کا صدر تھاجس وقت سابقہ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن زوروں تھا جس میں ہزاروں خالق پاکستان قوم بنگالی قوم کا قتل عام ہورہا تھا۔بنگال کو بزور بندوق الگ کرنے کی سازش پر عملدرآمد ہورہا تھا۔جس کو بچانے کے لئے پاکستان کے محب وطن سیاستدان ولی خان، اصغر خان، غوث بخش بزنجو، شاہ احمد نورانی،پی پی پی کا باغی پارلیمنٹرین رضا قصوری اور دوسرے لوگوں نے ڈھاکہ جاکر اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کے سربراہ میجر سے کہا کہ آپ ڈھاکہ میں پارلیمنٹ کا اجلاس بلائیں ہم ملک بچانے کے لیے آپ کے ساتھ ہیں مگر ایسا نہ ہوااور فوجی آپریشن شدت پکڑ گیا۔معصوم اور بے گناہ بنگالیوں کا قتل جاری رہا جو آخرکار علیحدگی کا باعث بنا۔ایسے قومی اور ملکی سانحہ برپا ہونے سے پہلے ہم آدھی درجن کراچی کے مختلف کالجوں کی یونین کے صدور لاہور پہنچے جنہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے صدر جاوید ہاشمی سے ملاقات کرکے کہا کہ ہمیں بنگال میں فوجی آپریشن کی مخالفت کرنی چاہئے۔سیاسی مذاکرات ہونے چاہئیں ،پاکستان کا مقصد توڑا جارہا ہے تو جاوید ہاشمی نے کہا جواب دیا کہ بنگال میں بغاوت پھیل چکی ہے۔لہٰذا ایسے میں کچھ نہیں ہوسکتا ہے چنانچہ ہم لوگ واپس آکر اپنی استطاعت کے مطابق فوجی آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے گرفتار ہوئے جب جیل سے رہا ہوئے تو ملک ٹوٹ چکا تھاجس کے بعد جاوید ہاشمی نے بنگلہ دیش نامنظور تحریک چلائی جو اسلامک سمٹ کے موقع پر شدت اختیار کر گئی۔جب شیخ مجیب بطور بنگلہ دیشی وزیراعظم واپس پاکستان آئے تھے جو دیر ہوچکی تھی بعدازاں پتہ چلا جاوید ہاشمی نے جنرل ضیاء کے ساتھ مل گئے جو ایک قومی جرم کے مترادف تھا جس کا انہوں نے ازالہ ایک دوسرے باغی جنرل مشرف کے دور میں ادا کیا۔جب انہوں نے جنرل مشرف کی مخالفت کرکے پانچ سال کی جیل میں زندگی گزاری جس میں جاوید ہاشمی نے کہا کہ ہاں میں باغی ہوں۔میں نے جنرل ضیاء کی حمایت کرکے گناہ کبیرہ کیا ہے جس کی میں پاکستانی قوم سے معافی مانگنا ہوں۔آج میں جنرلوں کے خلاف کھڑا ہوں جو سنت سوشے پر عمل کرنے کا اقرار تھا یا پھر حرکا کردار تھا جنہوں نے ابن زیاد کی فوج اور شمر کیخلاف بغاوت کرکے حضرات امام حسین علیہ اسلام کا ساتھ دیتے ہوئے شہید ہوگئے تھے۔حال ہی میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مسلسل بیانات سے ثابت ہوچکا ہے کہ جاوید ہاشمی واقعی باغی ہوچکے ہیں جنہوں نے چند دنوں پہلے اپنے انٹرویو میں پاکستانی جنرلوں کو ننگا کرتے ہوئے کہا کہ ہاں میں باغی ہوں مجھے گرفتار کر لو میری قبر سے آواز آئے گی کہ آپ نے ملک توڑا ہے، ملک برباد کیا ہے آج کے پاکستان کے ذمہ دار ہو جو بہت بڑا بیان ہے جس پر پوری اسٹیبلشمنٹ ہل چکی ہے۔کہ آج پنجاب میں فوج اہل پنجاب کے سامنے مجرم بن چکی ہے۔جس کے بارے میں پنجاب کی گلی کوچوں میں آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ فوج نے انتخابات میں دھاندلی برپاکی ، ایک نالائق ،نااہل اور ملک دشمن شخص سے غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے تاہم پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا واقعہ ہے کہ پنجاب کی سرزمین میں بھگت سنگھ اور حبیب جالب کے بعد دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اشخاص جاوید ہاشمی او رمیاں لطیف جیسے لوگ باغی ہوچکے ہیںجس سے ان کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہوچکا ہے مگر دونوں بضد ہیں کہ ملکی نظام میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت بند کرنا ہوگی جس سے دوسرے چھوٹے صوبوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے جن کو ہمیشہ باغی بن کر سزائیں دی گئیں مگر آج پنجاب سے بھی وہ آواز بلند ہو رہی ہے جس کی وجہ سے بنگالی الگ ہوا یا پھر بلوچستان میں پانچویں فوجی آپریشن جاری ہے جوکہ ایک نہایت بہادرانہ، دلیرانہ عمل ہے تاکہ پاکستان کو ختم کرنے کے لیے بڑے صوبے سے آواز اٹھنا چاہئے تھی جو اب اُٹھ چکی ہے آج پنجابی فوج اپنے ہی صوبے میں ٹرائل پر جاچکی ہے۔بہرکیف جاوید ہاشمی نے جنرل باجوہ کے استعفے کا مطالبہ کردیا ہے جس کو پوری اپوزیشن نے بھی ان کی غیر قانونی اور غیر آئینی توسیع میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھاجس سے پاکستان کے محب وطن دوسرے جنرلوں کا استحصال ہوا جو ساری زندگی اپنی قابلیت کی بنا پر ملکی فوج کی سپہ سالاری کا خواب دیکھتے ہوئے ریٹائر ہوجاتے ہیںجن کے دشمن جنرل ایوب خان ، جنرل یحیٰی خان، جنرل ضیائ، جنرل مشرف، جنرل کیانی، جنرل باجوہ جنہوں نے خود ساختہ یاطاقت دس دس سال توسیع حاصل کرکے اپنے دوسرے جنرلوں کی حق تلفی کی ہے جس کی وجہ سے یقیناً فوج بے چینی پائی جاتی ہوگی جس کا اظہار موجودہ پاکستان میں شدید بے چینی اور کشیدگی میں پایا جاتا ہے۔بحرحال جاوید ہاشمی وقت کی آواز ہے جس کا سننا اور عمل کرنا ہر پاکستانی شہری کا فرض بن چکا ہے کہ کس بنگال کی طرح دیرینہ ہوجائیگا۔شیخ مجیب ولی خان غوث بزنجو ، رضا قصوری، شاہ احمد نورانی پاکستان بچا رہے ہیں جس کی پاداش میں شیخ مجیب اور ولی خان اور حبیب جالب کو باغی قرار دیا گیا تھا آج جاوید ہاشمی اور میاں جاوید لطیف پاکستان بچا رہے ہیں۔جن پر بغاوت کے مقدمات کے درج ہوچکے ہیں جنہوں نے بھی اپنے پیشرئوں کے نقش قدم پر چل کر باغی کہلاتے ہیں۔کاش مجوزہ باغیوں کی بغاوت پر غور کیا جاتا تو نہ کل ملک ٹوٹتا ناہل آج کے خطرات لاحق ہوتے جو آج ہمیں پاکستان میں شدید خانہ جنگی کی شکل میں نظر آرہا ہے کہ ملک کو ایک منصوبہ بندی کے تحت خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جارہا ہے جس کو روکنے کے لیے ہر پاکستانی کو موجودہ مسلط نظام کے خلاف بغاوت کرنا ہوگی جو پاکستان کے بقا کا باعث بنے گا لہٰذا ہمیں جاوید ہاشمی اور میاں جاوید لطیف کے بیانات پر غوروفکر کرنا ہوگا تاکہ پاکستان کو ملک دشمن طاقتوں سے بچایا جائے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here