اگرچہ پاکستان میں صاف وشفاف انتخابات ایک خواب بن چکے ہیں ۔جس میں مقتدر اعلیٰ کی انتخابات میں مداخلت جاری ہے جو انتخابات میں جیتنے والوں کو ہروا اور ہارنے والوں کو جتوا دیتے ہیں۔جب ضرورت پڑتی ہے تو کبھی کبھار انتخابات اس لیے آزادانہ اور منصفانہ منعقد کرتے ہیں تاکہ کسی سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے یا پھر اپنی مشکلات اور مصائب کا بوجھ سویلین پر ڈالا جائے۔کہا اور سنا جاتا ہے کہ جنرل یحیٰی خان نے1970کے انتخابات صاف اور شفاف منعقد کرائے تھے جس میں جنرل ایوب خان والی سازش خفیہ تھی کہ بنگال کو پاکستان سے کیسے اور کیوں الگ کیا جائے جو پاکستان کے عوام کو آزادی اور خودمختاری کے لیے متاثر کر رہا تھا لہٰذا1970کے انتخابات کا انعقاد ہوا جس میں پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹی عوام لیگ نے مشرقی پاکستان میں ماسوائے دو نشستوں باقی تمام کی تمام162نشستیں حاصل کرلیں جس کو اب حکومت بنانے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہو رہی تھی جبکہ مغربی پاکستان میں بھی صوبہ پختون خواہ سے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت الاسلام اور کراچی سے جمعیت علماء پاکستان سے ولی خان، مفتی محمود اور مولانا نورانی کی حمایت حاصل تھی جس میں پانچوں صوبوں کے گورنرز عوامی لیگ کے ہونے تھے۔مگر جنرلوں نے اکثریت پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار دینے سے انکار کردیا جس کے خلاف شدید ردعمل آیا جس کی آڑ میں فوجی آپریشن کا آغاز ہوا جس میں لاکھوں بنگالی عوام مارے گئے اور ہزاروں بنگالی خواتین کی عزتیں لوٹ لی گئیں جو آخرکار بنگلہ دیش کا جواز بنا۔جس کے بارے میں پاک فوج کے افسران اور جنرل خادم حسین راجہ، بریگیڈیئر صدیق سالک، جنرل ابوبکر عثمان مٹھا، جنرل اسد درانی اور جنرل اسلم بیگ وغیرہ نے اپنی کتابوں میں عینی شواہدوں اور شہادتوں پر مشتمل ذکر کیا ہوا ہے کہ ہم نے بنگال کو کیوں اور کس طرح الگ کیا ہے۔جب ملک ٹوٹ گیا تو شکست خوردہ جنرلوں نے ٹوٹے پھوٹے باقی ماندہ پاکستان کا اقتدار بھٹو کے حوالے کردیا۔جب بھٹو پسند نہ آیا تو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا جو گیارہ سال تک اقتدار پر قابض جنرل ضیاء الحق کے حادثے کے بعد جنرل اسلم بیگ نے اقتدار سویلین کے حوالے کیا جو دس سال تک بینظیر بھٹو اور نوازشریف کی شکل میں سازشوں کے شکار رہے پھر ایک دن آیا کہ جنرل مشرف نے ملک کے منتخب نواز حکومت پر قبضہ کرلیا جو9سال تک بلاغیر سے شرکت پاکستان پر قابض رہے جن کو عدلیہ برطرف کرنے پر اقتدار سے الگ اور ملک بدر کرنے میں وکلاء تحریک نے جنم لیا جو نہایت کامیاب رہی۔اب پھر دس سالہ دور زرداری اور نوازشریف کا چل نکلا جس میں جمہوریت کی بحالی کا خوشبو آنے لگی سیاسی کارکنوں سے جیلیں پاک کی گئیں۔انسانی اور شہری حقوق بحال ہوئے میڈیا آزادی کا دور جاری ہوا۔ملک میں سیاسی معاشی اور سماجی ترقی کا چرچا عام ہوا کہ پھر اسی اسٹیبلشمنٹ نے25جولائی2018کے انتخابات میں دھاندلی برپا کرکے عمران خان کی ڈولی کہاروں نے اٹھا لی یہ جانتے ہوئے کہ اس ڈولی میں لڑکی نہیں چیڑیل بیٹھی ہوئی ہے جس کے ہاتھ پیر ٹیڑھے ہیں جو سامراجی طاقتوں کے قابو میں ہیں جس نے پاکستان میں سیاسی معاشی اور سماجی تباہی بربادی مچا دی کہ آج ملک پائی پائی کا محتاج ہوچکا ہے۔ملک میں مارشلا نما سماں ہے۔میڈیا بند پڑا ہے۔انسانی آزادیاں سلب ہوچکی ہیں انسانی حقوق پامال ہوچکے ہیں۔پارلیمنٹ غیر موثر اور عدلیہ یرغمال بن چکی ہے۔جس میں چیڑیل کی ڈولی کے کہاروں کا مکمل ہاتھ ہے جنہوں نے ملک کو پھر1971والے حالات مبتلا کر رکھا ہے۔تاہم پی ڈی ایم کی طاقت کی وجہ سے انتخابات میں وقتی طور پر دھاندلیوں کا سلسلہ رک گیا تھا جس میں اپوزیشن نے سابقہ13ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی جس میں چیڑیل اور کہاروں کو بڑی طرح شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا تھا مگر جیسے ہی پی ڈی ایم ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہوئی تو کہاروں نے پھر چیڑیلی ڈولی اٹھا لی جس میں آزادکشمیر اورس سیالکوٹ میں انتخابات میں حسب معمول اور عادت لوٹ مار کا ہنگامہ برپا ہوا جس کے بعد اب آئندہ کے انتخابات کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں جس کے لیے اب چوروں ڈاکوئوں، رسیہ گیروں، جاگیرداروں، اجارہ اداروں پر مشتمل گروہوں اور گروپوں کی بنیاد پر انتخابات کا انعقاد ہوگا جس سے آئندہ کی پارلیمنٹ کو متنازعہ بنا کراگلے پانچ سال گزارے جائیں گے جو مزاحمت کاروں کے لیے چیلنج اور مفاہمت پسندوں کے لیے باعث شرم کا مقام ہوگا کہ نا خدا ہی ملانا وصال صنم ناادھر کے رہے نا اُدھر کے رہے۔یا پھر دھوبی کا کتا گھر کا نا گھاٹ کا کہ کیا پاکستان میں کبھی آزادانہ اور منصافانہ انتخابات کا انعقاد ہوگا۔جس کے لیے کیا الیکشن کمیشن آزاد اور خود مختار ہوگا کیا پاکستانی عدلیہ بااختیار اور انصاف پسند ہوگی یا نہیں جس کے بارے میں امریکی اداروں نے کھلم کھلا بیان کردیا ہے کہ پاکستانی عدلیہ آزاد نہیں ہے جو ریاست کے اوپر ریاست کے حکمرانوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔جو دبائو میں آکر فیصلے کر رہی ہے جس سے لگتا ہے کہ اب شاید مزاحمت کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ کار باقی نہیں بچا ہے یہی وجوہات ہیں مسلم لیگ نون کے اندر مزاحمت کاروں اور مفاہمت پسندوں کے درمیان میں شہ کشی جاری ہے جس کی قیادتیں آپس میں الجھ پڑی ہیں۔جس کے بعض اراکین بنگلہ دیش اور ترکی طرح طاقتوروں اداروں سے ملکی نظام چھین لینا چاہتے ہیں تاکہ ملکی آئینی ادارے آزاد اور خودمختار ہوجائیں جبکہ مفاہمت پسند اسٹیبلشمنٹ کی علت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ عوامی جنگ لڑ نہیں سکتے ہیں جو شاید ذلت اور رسوائی کے عادی ہوچکے ہیں۔بہرحال ووٹ کو عزت یا ذلت دوبیانیہ کامیاب ہوگا یا نہیں اب اس کا فیصلہ عوام کو کرنا ہوگا بشرطیکہ مسلم لیگ نون کی قیادت اپنے پیدا کردہ خلفشار اور انتشار سے باہر نکلے گی۔لیکن پاکستان میں جمہوریت مقدر بن چکی ہے۔جس کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی ہے جو قدرتی امر ہے کہ انسان آزادی پسند ہے جو ہر حالات میں ظلم وستم جبر وتشدد کا مقابلہ کرتا چلا آرہا ہے اب ن نہیں تو کوئی اور ہوگا جو ملکی عوام کی قیادت کریگا۔
٭٭٭