تحوید جاندار اور پیش کش دلچسپ ہو تو سائنس سے زیادہ مزیدار کوئی اور شعبہ نہیں۔
عوام میںسائنس وٹیکنالوجی کا ذوق وشوق کیسے پیدا کیا جائے؟
1940ء کی بات ہے،انجمن ترقی اردو سند کے جریدے ”سائنس” میں ایک مضمون شائع ہوا۔عنوان تھا پٹرولیم کی کہانی اور مضمون نگار تھے آفتاب حسن(یہ وہی آفتاب حسن ہیں جو بعدازاں آرمی ایجوکیشن ڈائرکٹریٹ اور ملٹری اکیڈمی کاکول کی وجہ سے میجر آفتاب حسن کہلائے۔اردو کالج کے پرنسپل اور کراچی یونیورسٹی کے شعبہ تصنیف وتالیف وترجمعہ کے سربراہ ہوئے اور میرے استاد محترم)۔مضمون پٹرولیم کی کہانی کا پس منظر یہ تھا کہ1932ء میں سعودی عرب میں پٹرول دریافت ہوا تھا اور عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مٹی کے اندر سے ایندھن کیسے نکل سکتا ہے۔مضمون کی زبان بہت سادہ اور دلچسپ تھی۔ہندوستان میں اس دور کے جید عالم مولانا عبدلماجد دریا آبادی نے وہ مضمون پڑھا اور ایڈیٹر کو خط لکھا کہ اگر سائنس اتنی دلچسپ ہوتی ہے تو مجھے افسوس ہے کہ میں نے سائنس نہیں پڑھی۔1952ء میں جب میری عمر دس سال تھی اور میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا تو ہماری اردو کی کتاب میں وہی مضمون موجود تھا۔مہ وسال گزرتے گئے میں اسکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی پہنچ گیا اور ایم اے صحافت میں داخلہ لے لیا۔ان ہی دنوں میری عظمت علی خاں صاحب سے ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی۔انہوں نے مشورہ دیا کہ میں کراچی یونیورسٹی میں جناب وقار احمد زبیری کے توسط سے میجر آفتاب حسن صاحب سے ملاقات کروں۔8مئی1949ء کو وقار زبیری صاحب مجھے میجر صاحب سے ملاقات کے لیے لے گئے۔انہیں دیکھ کر میرے منہ سے بے ساختہ یہ جملہ نکلنے والا تھا۔”ارے یہ ابھی تک زندہ ہیں”۔میجر صاحب نے مجھ جیسے عام سے طالب علم کا والہانہ خیرمقدم کیا اور گرج دار آواز میں کہا”خبردار سائنس کو کبھی خشک مت بنانا” اس طرح میں میجر صاحب کے حلقے سے وابستہ ہوگیا۔میں نے ڈاکٹر رضی الدین صدیقی صاحب کا روزنامہ جنگ کے لیے انٹرویو کیا تھا جو بعدازاں سائنس ڈائجسٹ میں شائع کیا گیا۔ڈاکٹر صاحب سے دریافت کیا گیا کہ آپ کو ریاضی اور فلکیات جیسے خشک مضامین سے کیسے دلچسپی پیدا ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ1917ء یا1918ء کی بات ہے ہمارے ایک استاد کیمبرج سے پی ایچ ڈی کرکے آئے تھے۔سر عبدالرحمن ان کے پڑھانے کا اندازہ اتنا دلچسپ اور پرکشش تھا کہ مجھے ریاض سے دلچسپی پیدا ہوگئی۔وہ کلاس میں پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے اور اس انداز سے لیکچر شروع کرتے تھے کہ گویا آج سائنس میں کوئی بہت بڑا انکشاف ہونے والا ہے۔چنانچہ سارے طالبعلم ہمہ تن گوش ہوجاتے تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب نیلس لوہر اور البرٹ آئن اسٹائن شہرت کی منزلیں طے کر رہے تھے۔ڈاکٹر صدیقی سے ایک سوال یہ بھی کیا تھا کہ آسمان میں ہزاروں ستارے چمکتے ہیں ہمیں تو وہ سب ایک جیسے نظر آتے ہیں آپ نے تو ان کی درجہ بندی اور گروپنگ بھی کی ہوئی ہے۔آپ انہیں الگ الگ کیسے شناخت کرلیتے ہیں کہ وہ فلاں ستارہ ہے اور وہ فلاں۔ڈاکٹر صاحب مسکرائے اور انہوں نے فرمایا کہ”میاں اگر کسی میدان میں دو ہزار نوجوان موجود ہوں اور ان میں تم بھی شامل ہو تو تمہارے والد ان میں سے تمہیں کیسے پہچان لیتے ہیں۔اسی طرح جو علم فلکیات کے ماہرین ہوتے ہیں وہ بھی اصولوں اور تکنیکس کی مدد سے ستاروں کی شناخت کرلیتے ہیں۔
شعبہ صحافت کی کلاسیں ختم ہونے کے بعد میں شعبہ تصنیف وتالیف وترجمہ میں میجر صاحب کے ساتھ کام کرنے کے لیے چلا جاتا تھا۔میجر صاحب مجھ سے سائنسی مضامین کے ترجمعے اور پروف ریڈنگ کے کام لیا کرتے تھے اس طرح مجھے صرف دو گھنٹے کام کرنے کے دو سو روپے ماہانہ مل جاتے تھے جو اس زمانے میں بڑی رقم ہوا کرتی تھی۔پاکستان میں سائنسی شعورو آگہی کے فروغ کے لیے میجر صاحب اور ان کے رفقاء سائنس دانوں نے1954ء میں ایک ادارہ سائنٹیفک سوسائٹی آف پاکستان کے نام سے قائم کیا تھا۔اس کے افراض ومقاصد میں اردو زبان میں سائنس وٹیکنالوجی کے مختلف موضوعات پر کتب کی اشاعت کے ساتھ ساتھ ہرسال پاکستان کے بڑے شہروں میں سائنس کانفرنسیں منعقد کرانا تھا۔ان کانفرنسوں میں پاکستان کی یونیورسٹیوں،تحقیقاتی اداروں اور بڑے کالجوں میں تحقیقی کام کرنے والے سائنس داں اور اسکالرز اردو میں اپنے تحقیقی مقالے پیش کرتے تھے۔ان کانفرنسوں میں شرکاء کی تعداد سیکڑوں نہیں ہزاروں میں ہوتی تھی۔سائنٹیفک سوسائٹی کے کارکن کی حیثیت سے میں بھی ان کانفرنسوں میں شرکت کرنے لگا۔چنانچہ پہلی کانفرنس جس میں میں نے شرکت کی وہ دسمبر1949ء میں نشتر میڈیکل کالج ملتان میں منعقد ہونیوالی گیارہویں سالانہ کانفرنس تھی جس کے مہمان خصوصی گورنر مغربی پاکستان میڈیکل کالج ملتان میں منعقد ہونے والی گیارہویں سالانہ کانفرنس تھی جس کے مہمان خصوصی گورنر مغربی پاکستان ایئرمارشل نورخان تھے۔صحافت میں ایم اے کرنے کے بعد میرا تقرر سہ ماہی کاروان سائنس میں ہوگیا۔پی سی ایس آئی آر کے اس جریدے کے مرید عظمت خاں صاحب تھے۔یہاں مجھے ان کے ساتھ بحیثیت سب ایڈیٹر آٹھ سال کام کرنے کا موقع ملا۔عظمت صاحب کا طرز تحریر انتہائی دلچسپ، سادہ اور عام فہم تھا۔چنانچہ مجھے ان سے بہت کچھ سیکھنے کے مواقع ملے۔اس ادارے میں دنیا کے کئی ممالک سے سائنس وٹیکنالوجی کے دو سو سے زائد رسائل وجرائد آتے تھے۔جن کی وجہ سے پوپالو سائنس کے شعبے میں میری معلومات اور تجربے میں بہت اضافہ ہوا۔ابھی تک اردو زبان میں کاروان سائنس جیسے معیار اور حسن طباعت کے ساتھ کوئی دوسرا جریدہ شائع نہیں ہوسکا ہے۔عظمت صاحب کی شاگردی میں کام کرنے سے مجھے معلوم ہوا کہ خوبصورت، دلچسپ اور سادہ تحریر کیا ہوتی ہے اور کیسے لکھی جاتی ہے۔1975ء میں کاروان سائنس کی اشاعت منقطع ہونے کے بعد میں اخبار جہاں میں جناب نثار احمد زبیری کے ساتھ کام کرنے لگا۔ان دنوں میر شکیل الرحمن صاحب نے روزنامہ جنگ میں نت نئے صفحات کے تجربات شروع کیے تھے۔انہوں نے اقراء کے نام سے اسلامی صفحہ شروع کیا۔ڈیڑھ مہینے بعد کسی نے ان کی توجہ سائنس کی طرف مبذول کرائی کہ سائنس کی تو بہت اہمیت ہے۔(جاری ہے)