پاکستان کے آئینی اداروں کے بارے میں لکھنا وقت کا ضیاع بن چکا ہے کہ جن کے نمائندگان، عہدیداران، اہلکار، وزیر ، مشیر اور جج صاحبان طاقور اداروں کی ایک فون کال پر ڈھیر ہو جاتے ہیں جن کو آئین پاکستان پر بھروسہ نہیں ہے۔ اختیارات کا علم نہیں ہے، عوام کی طاقت پر اعتماد نہیں ہے کہ وہ آئین پاکستان کے مطابق عطاء کردہ اختیارات کو استعمال نہیں کر پائی، جس کا مظاہرہ گزشتہ سات دہائیوں سے ہو رہا ہے، جن کی پارلیمنٹ ایک ربڑ اسٹیمپ بن جاتی ہے، عدلیہ آئین کے مد مقابل فوجی قانون ایل ایف او اور پی سی او کی حلف بردار کہلاتی ہے، حکومت اردلی قرار دی جاتی ہے چاہے وہ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ ہو، قاضی عیسیٰ کیخلاف ریفرنس ہو، جسٹس وقار سیٹھ کا جنرل مشرف کیخلاف تاریخی فیصلہ، منتخب وزیراعظم کے اختیار پر قبضہ ہو، سینیٹ کے چیئرمین کا انتخاب ہو، جنرلوں کی توسیع کا معاملہ، منی بجٹوں کی منظوری کا وقت ہو، ایک فون کال پر عدلیہ، پارلیمنٹ اور حکومت تمام کے تمام آئینی ادارے طاقتور اداروں کے سامنے سربسجود ہو جاتے ہیں جس پر بعض عوام دشمن، بے ضمیر اور بے غیرت لوگ فخر کرتے نظر آتے ہیں تاہم پچھلے چند سالوں میں بعض ایسے معاملات سامنے آئے ہیں کہ جس پر پارلیمنٹ کے نمائندگان کو جنرولں کے سامنے سجدہ کرتے دیکھا گیا جس پر پاکستانی قوک کا ہر فرد گریہ زاری کرتا نظر آیا ہے کہ جب سینیٹ کے چیئرمین سنجرانی کے انتخاب اور عدم اعتماد پر ایک فون کال نے اقلیت کو اکثریت میں بدل دیا کہ سینیٹ کے سولہ ممبران نے حزب اختلاف کی امیدوار کی بجائے حکومتی باپ پارٹی کے امیدوار صادق سنجرانی کو ووٹ دے کر کامیاب کرایا پھر ایک وقت آیا کہ جب جنرل باجوہ کی توسیع جس کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے چھ ماہ کا وقت دیا کہ وہ آئین میں ترمیم کریں جس میں تینوں فوجوں کے سربراہان کی نامزدگی کا ذکر ہے توسیع کا نہیں جس پر پوری پارلیمنٹ نے آئین میں تبدیلی کی بجائے فوجی قانون بنا کر جنرلوں کی توسیع کا راستہ کھول دیا ہے، چاہے وہ عمر کے لحاظ سے چلنے پھرنے کے قابل نہ رہیں، چنانچہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں نے جنرل باجوہ کو توسیع دیدی جبکہ ان کی عمر ستر سال کے لگ بھگ پہنچ جائیگی جو سرحدوں کی کمان تو کجا بستر سے اُٹھنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ جس پر متوقع امیدوار جنرل طبقہ خاموش ہے، ابھی حال ہی میں منی بجٹ کا مسئلہ سامنے آیا جو عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کے مترادف تھا کہ اگر حزب اختلاف منظوری کا ووٹ نہ دیتی مگر ایک فون کال پر منی بجٹ منظور ہو گیا حالانکہ یہ منی بجٹ عوام کے مسائل کے حل کی بجائے عوام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ بن چکا ہے تاکہ بین الاقوامی ساہو کار آئی ایم ایف کے قرضوں کی قسط دی جائے جس کو سٹیٹ بینک وغیرہ پہلے ہی گروی رکھ دیئے گئے ہیں، اب صرف پاکستان کے موٹر وے، پی آئی اے، واپڈا، ریلوے، اور دوسرے قومی اداروں کو گروی رکھنے کی تیاریاں ہیں جس میں پاکستان کی حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں شریک جرم ہونگی۔ بہرکیف آئی ایم ایف آج سابقہ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی بن چکا ہے جس کے حکم پر پاکستان کے زرمبادلہ کا لین دین ہوگا۔ کرنسی کا اجراء ہو گا، ملک پر ٹیکسوں اور واجباتوں کا نفاذ ہو رہا ہے جس کے قرضوں میں کمی کی بجائے دوگنا اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہو چکا ہے۔ قومی اثاثوں کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں، ملک میں استحکام کی بجائے انتقام کو ترجیح دی گئی ہے جس سے پاکستان دنیا کا کمزور ترین ملک بن کر سامنے آیا ہے جس کے تمام ادارے اپاہج ہو چکے ہیں جس میں عدلیہ بُری طرح داغدار ہوئی ہے۔ ملک چاروں اطراف دشمنوں میں گِر چکا ہے جس کو نکالنا ناممکن بن چکا ہے لہٰذا ایسے وقتوں میں ایک فون کال کا معاملہ بند ہو جانا چاہئے، عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ پاکستان کو بچایا جائے یا مٹایا جائے۔ ظاہر ہے جس ملک کے آئینی ادارے یرغمال بنا لیے جائیں تو وہ ملک مقبوضہ اور عوام غلام بن جاتے ہیں جس کا مظاہرہ پاکستان میں ہو رہا ہے، قصۂ مختصر عدم اعتماد اور ان ہائوس تبدیلیوں کا واویلا ختم کر دینا چاہئے جو ایک فون کال پر ناکام ہو سکتا ہے جو بھی اپوزیشن کو فیصلہ کرنا ہوگا وہ سابقہ فون کالوں کو مد نظر رکھ کر کرنا ہوگا تاکہ شرمندگی سے بچا جائے اور عوام کی دل آزاری نہ ہو۔
٭٭٭