امریکہ دریافت نہ ہوتا تو کیا ہوتا!!!

0
107
رمضان رانا
رمضان رانا

پچھلے ماہ راقم الحروف کو سائوتھ امریکہ جانے کا موقع ملا جس میں پیرو کے سمندروں ،صحرائوں، پہاڑوں، جنگلوں اور دریائوں کو دیکھا گیا تو خیال آیا کہ اگر کرسٹوفر کولمبس امریکہ دریافت نہ کرتا تو کیا ہوتا جس میں منفی اور مثبت واقعات پر روشنی ڈالنا پڑے گی۔ کہا جاتا ہے کہ کولمبس یورپین نو آبادیاتی نظام کا ایجنٹ تھا جو دراصل ہندوستان جو اس وقت سونے کی چڑیا کہلاتا تھا جس پر مسلح حملہ آوروں کی یلغار تھی جو لوٹ مار میں آپس میں بھی جنگیں لڑ رہے تھے جب یورپین نو آبادیاتی نظام کے سرغنوں کو پتہ چلا کہ اب ہندوستان پر مسلم قابض کمزور ہو رہے ہیں جو لودھی اور بابر کی شکل میں جنگوں میں الجھے ہوئے تو کولمبس ہندوستان کو دیکھنے نکلا جن کو ہسپانوی جاسوس سیاح کہا جاتا ہے کہ جن کی کشتی غلطی سے ہندوستان کی بجائے امریکہ جا لگی تو انہوں نے رنگدار انڈین کی بجائے ریڈ انڈین لوگ دیکھے جو یہ پہلا سیاح تھا جس نے ایک دوسری دنیا کے لوگ پائے جن کی کوئی ریاست نہ تھی جو خانہ بدوشوں کی شکل میں رہتے تھے جو موسموں کے ساتھ ساتھ سفر کرتے نظر آتے تھے تو کرسٹوفر کولمبس نے واپس جاکر اسپین کو مطلع کیا جو تازہ تازہ عربوں سے آزاد ہوا تھا تو اسپین نے پہلی مرتبہ1533کو اس دنیا پر حملہ کردیا جن کی پیرو کے مقام انکا نامی سلطنت سے جنگ ہوئی تھی جس کے بعد یورپین کی یلغار اٹھی جس نے پورے امریکہ پر ہسپانوی، پرتگالی، فرانسیسی اور برطانوی نوآبادتی نظام برپا کردیا کہ جس میں نیٹو مقامی حقیقی باشندوں کو قتل وغارت سے ختم کرنے کی سازش کی۔ جن کی سونے کی دولت لوٹ لی گئی۔ پورے نارتھ سائوتھ اور سنٹرل امریکہ پر قبضہ کرلیا گیا۔ جس پر سوال پیدا ہوتا کہ اگر کولمبس امریکہ دریافت نہ کرتا تو اس لاپتہ دنیا کے بارے میں کیسے پتہ چلا کہ امریکہ میں بھی انسان بس رہا ہے۔ جو ہزاروں سالوں سے یہاں آباد تھا جو زمانہ قدیم میں نہ جانے کس طرح اور کیوں منگو لیا جاپان چین اور کوریا وغیرہ سے ہجرت کرکے پورے امریکہ کے جنگلوں دریائوں صحرائوں اور پہاڑوں پر رہنے لگا تاہم جب امریکہ دریافت ہوا تو اس یورپ ایشیا اور افریقہ میں مختلف قائم تھیں ہندوستان پر لودھی خاندان قابض تھا جو بعد میں سلطنتیں محفلوں کے ہاتھوں ختم ہوا۔ مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ پر سلطنت عثمانیہ قائم تھی۔ رومن اور فارس سلطنت زوال پذیر ہوچکی تھی یورپ عہد تاریک سے باہر نکل رہا تھا۔ مگر مجوزہ سابقہ اور برقرار طاقتیں امریکہ کے بارے میں لاعلم تھیں جس پر مزید سوال اٹھاتا ہے کہ دریافت کرنے والوں کے پاس بحری نہ تھے جو امریکہ کے بارے میں جان نہ سکے تو پھر امریکہ میں تیرہ ہزار سالوں سے منگو لیا وغیرہ سے آنے والے قبائل کس طرح امریکہ آئے تھے جب بحری جہاز کا وجود نہ تھا۔ جس کا جواب ندارد ظاہر ہے دنیا بھر کے قبائل سالوں اور صدیوں سفر کرتے رہے ہیں جس میں صرف سنٹرل ایشیا کے آرین قبائل کو دیکھا جائے جو پتہ چلتا ہے جو وادی سندھ میں پانچ سو سال تک داخل ہوتے رہے جن کی چار ہزار سال پہلے کوئی ہجرت یا آبادکاری ہے کہ جب آرمین قبائل نے مقامی باشندوں کو غلام بنا لیا تھا جو بھی امریکن باشندوں کی طرح خانہ بدوشوں کی شکل میں رہتے تھے مگر آرین کے آنے سے پہلے ایک ہزار سال پہلے وادی سندھ میں دو تہذیبیں ہڑپہ اور حونجو داڑو پائی گئی جن کی تجارت نینو اور یا بل سے تھی جس کے عراق میں آشار پائے گئے ہیں اس کہئے یہ نہیں کہا جائے گا کہ ہندوستان میں امریکہ کی طرح مقامی باشندے آباد نہ تھے۔ بہرکیف بقول سیاحوں کے ماہرین منگولیں نسل کے لوگ امریکہ میں آباد ہوئے،دشوار گزار راستوں سے امریکہ میں داخل ہوئے جنہوں نے نہ جانے کس طرح اونچے اونچے پہاڑوں جنگلوں دریائوں اور سمندروں کو طے کیا جس پر عقل دھنگ رہ جاتی ہے جن کی یورپین حملہ آوروں نے رسم ورواج نے کلچر تہذیب وتمدن تباہ وبرباد کر ڈالا جن کی زبان آج لاطینی ہے ظاہر ہے جب کوئی قوم اپنی زبان کھو بیٹھتی ہے تو وہ اپنے کلچر اسم و رواج تہذیب وتمدن سے بھی محروم ہوجاتی ہے جوامریکہ میں ہوا جس کے باوجود چند فیصلہ نیٹوا زبانیں بولی جارہی ہیں جس میں پیرو میں25فیصد نیٹوا ہسپانوی زبان سے ناواقف ہیں جو صرف اور صرف اپنی نیٹوا زبان بولتے ہیں بحرحال وہ منگول جنہوں نے عراق میں انسانوں کی کھوپڑیوں کے منار بنائے تھے۔ ہندوستان پرفائلوں کی شکل میں تین سو سال سے زیادہ حکمران اپنے رہے ان کی نسلیں امریکہ میں گمشدگی کی زندگی بسر کرتی رہی ہیں جن کے بارے میں منگول لوگ بھی ناواقف تھے اگر کرسٹو فرکولمبس امریکہ دریافت نہ کرتا تو امریکہ کے باشندوں کے بارے میں کچھ پتہ نہ چلتا کہ امریکہ کہاں ہے اور یہاں کون لوگ آباد ہیں وہ کن کی نسل ہے وہ یہاں کیسے اور کیوں آکر آباد ہوئے کیا کوئی طوفان آیا تھا۔ خشک سالی برپا ہوئی تھی یا پھر بنی آدم پوری کائنات میں پھیل گیا۔ جس کی عمر لاکھوں نہیں ہزاروں سالوں پر محیط ہے جو زمانہ قدیم میں بہت کم تعداد اور آج سب سے زیادہ تعداد میں پایا جاتا ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here