عمران خان کا ون مین شو!!!

0
142
پیر مکرم الحق

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت تحریک انصاف کے چیئرمین مقبولیت کی آسمان پر چمک رہے ہیں وہ اپنی ہی مستعفی شدہ آٹھ قومی اور تین صوبائی نشستوں میں سے چھ قومی اور دو صوبائی نشستوں پر کامیاب ہوگئے ہیں، چھ قومی حلقوں پر وہ خود امیدوار تھے جن پر جیتے ہیں ایک اور نشست جس پر ملیر کراچی کے حلقہ پر وہ خود امیدوار تھے ،اس پر وہ پیپلزپارٹی کے ایک کارکن امیدوار سے وہ دس ہزار کم ووٹ لیکر ہار چکے ہیں یاد رہے کہ یہ حلقہ وہ تھا جس پر گزشتہ انتخابات میں ان کا امیدوار کامیاب ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ان کی جماعت ملتان کے ایک حلقہ میں بھی شکست سے دوچار ہوئی یہاں پر ان کے اہم ترین پارٹی رہنما شاہ محمود قریشی صاحب(سینیئر وائس چیئرمین) تحریک انصاف کی صاحبزادی بیس ہزار ووٹ سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے موسیٰ علی گیلانی سے ہار چکی ہیں ۔یاد رہے کہ اس نشست پر بھی اس سے پہلے شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی فتحیاب ہوئے تھے۔ جنہوں نے استعفیٰ دیکر صوبائی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوئے تھے تاکہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب کے امیدوار بن سکیں ، ضمنی انتخاب قومی اسمبلی کا ہے اور شکست تحریک انصاف کیلئے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوئی ہے۔ اور اس سے بھی بڑا دھچکا انکے لئے یہ ہے کہ یہ دونوں جیتی ہوئی نشستیں اب پاکستان پیپلزپارٹی تحریک انصاف سے جیت چکی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تضحیک آمیز بات یہ ہے ملیر کی نشست پر عمران خان ذاتی طور پر پیپلزپارٹی کے قومی سطح پر نامعلوم رہنما سے دس ہزار ووٹوں سے ہارے اور ملتان کی نشست پر ان کے سینئر وائس چیئرمین کی صاحبزادی بیس ہزار ووٹوں سے اپنے مدمقابل موسیٰ گیلانی سے ہار گئیں جبکہ اس سے پہلے یہ نشست قریشی خاندان کے چشم وچراغ کے پاس تھی۔ یہ دونوں نتائج اس لحاظ سے بھی کافی اہم ہیں کہ عمران خان نے پاکستان پیپلزپارٹی کو اپنی طنز کے تیروں کے نشانے پر کافی مدت سے رکھا ہوا تھا۔ اب یہ نتائج انکے تکبر کیلئے ایک جھٹکا ثابت ہونگے۔ ساتھ میں یہ ایک پیغام یہ بھی ہے چیئرمین تحریک انصاف کیلئے کے جنوبی پنجاب میں انکی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے۔ کیونکہ انہوں نے جنوبی پنجاب کے علاوہ صوبے کی تحریک کیلئے قائم شدہ جماعت کو اپنی جماعت میں پچھلے انتخابات کے موقعہ پر اس وعدے پر ضم کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر جنوبی پنجاب کو علیحدہ کریں گے۔ لیکن عمران خان کی یہ خاصیت ہے کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا بنو؟ ۔یوٹرن کے بادشاہ کھلا اعتراف کرتے ہیں کہ جو رہنما یا جنرل یوٹرن نے لے وہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے انکا کوئی وعدہ جو اقتدار سے باہر انہوں نے کیا وہ اقتدار میں آنے کے بعد پورا کرنا تو دور کی بات ہے یاد ہی نہیں رہتا۔ سات نشستوں پر خان صاحب خود تو امیدوار بن کر چھ پر فتحیاب ہوئے لیکن عام انتخابات میں270نشستوں پر وہ خود تو نہیں انتخابات لڑ سکتے اس کے لئے انہیں جیتنے والے امیدوار چاہئیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر یہ ہرگز ممکن نہیں اسکی دو وجوہات ہے تحریک انصاف عمران خان کا ون مین شو ہے وہ کسی اور کی سنتے ہی نہیں نہ کسی عہدیدار کو سمجھتے ہیں انگریزی میں اسے کہتے ہیںFULL OF HIMSELFسیاسی جماعتیں ایک ٹیم ورک پر چلتی ہیں مشاورت سے فیصلے ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہینڈسم کپتان نے کرکٹ کی ٹیم کو ٹیم ورک سے نہیں چلایا تو سیاست میں ٹیم ورک کہاں؟ چمچے اور خوشامدیوں کے ٹولے میں گھرے خانصاحب کے پاس نکتہ چینی کی کوئی گنجائش نہیں وہ ہر فیصلہ اور ہر کام اپنی مرضی اور منشا سے کرتے ہیں۔ وقتی طور پر تو انکی شخصیت کے سحر سے یہ کام اچھا چلا گیا ہے لیکن مشکل وقت میں شخصی سحر اور انا سے کئے گئے فیصلے انکے لئے مشکلات کا سبب بنیں گے۔فتح کے بعد انہوں نے جو پریس کانفرنس کی ہے اس کے اہم نکات کچھ اس طرح ہیں کہ آرمی چیف کی تقرری میرٹ پر ہونی چاہئے جوکہ آئین اور متعلقہ قوانین کے تحت ہو۔ آئین کے تحت چیف الیکشن کمشنر کو90دن کے اندر نئے انتخابات کرانے چاہئیں اگر نہ ہوں تو چیف الیکشن کمشنر کو گھر بھیجا جائے۔ آرمی چیف کی تقرری کا آئین میں طے شدہ طریقہ کار یہ ہے کہ وزارت دفاع سینئر جرنلز کی ایک فہرست وزیراعظم کو بھیجے گی اور وزیراعظم موجودہ آرمی چین یا اپنے رفقاء سے مشورہ کرکے نیا آرمی چیف مقرر کرینگے۔ عمران خان بضد ہیں کہ موجودہ وزیراعظم کو یہ حق حاصل نہیں ہونا چاہئے۔ دوسری بات ہے کہ90دن کے اندر انتخابات کی تو آئین میں موجودہ اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے بعد90دن کی شرط لاگو ہوتی ہے۔ آئین میں یہ کہیں بھی نہیں لکھا ہوا کہ عمران خان جب کہیں تو اس کے90دن بعد سے انتخابات ہونے چاہئیں۔ خان صاحب نے آئین کو اپنے گھر کی باندی بنا دیا ہے۔ وہ جیسے چاہیںINTERPRAJEکریں یہ وضاحت صبریماً آئین کی خلاف ورزی ہے اور آج عمران خان فتح کے نشہ میں جو کچھ کرنا چاہ رہے ہیں وہ پاکستان کیلئے نہایت خطرناک ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here