اسلام میں مہمان کا احترام!!!

0
48
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

اسلام ایک ایسا آفاقی مذہب ہے جس میں انسان کی بجائے خود پرندوں اور جانوروں کے حقوق کی پاسداری کا حکم دیا گیا ہے۔اسلام سلامتی سے مشتق ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں دہشت گردی مار دھاڑ، غصب حقوق، ظلم و ستم اور لوٹ مار جیسے جرائم کی نہ فقط اجازت نہیں بلکہ ان کے ارتکاب میں کڑی سزائوں کا تعین بھی ہے۔ اسلام کے حکم ِ سلام میں بھی سلامتی پنہاں ہے اور یہ ایک ایسا امتیاز ہے جو کسی زبان یا علاقے کے پاس نہیں ہے۔ ہر زبان یا علاقے کے لوگ جب خیریت پوچھتے ہیں تو انہیں زمانے کی قید کے ساتھ خیریت دریافت کرنی پڑتی ہے۔ جیسے صباح الخیر، گڈ مارننگ، صبح بخیر وغیرہ مگر صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس میں خیریت کسی زمانے سے مقید نہیں ، السلام و علیکم ہر علاقے و زبان سے بہتر طریقہ دریافت خیریت ہے۔احکام اسلام کے فلسفہ پر غور کیا جائے تو عرب کے صحرائوں ، افریقی جنگلوں ، یورپی ، امریکی براعظموں میں جب کوئی السلام و علیکم کہہ دے تو طرف مقابل کو یقین ہو جاتا ہے کہ آنے والا جنگ و جدل کے لئے نہیں صلح و آتشتی کے لئے آیا ہے۔مہمان کے احترام کی بابت اسلام کا قانون بھی سب ادیان عالم پر برتری اور فوقیت رکھتا ہے۔ اس لئے کہ حکم اسلام ہے اکرم الضیف و لو کان کافرا ۔ مہمان کا احترام کرو خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ حضور اکرم کے دور میں جو کفار مدینہ آتے تھے حضور ان کے قیام و طعام کا بندوبست فرماتے ۔ اسی اخلاق کا نتیجہ تھا کہ وہ دامن اسلام میں پناہ لے لیتے، محارب کافروںکے گروہوں کی جانب سے جب کوئی قاصد(ڈپلومیٹ)آتا تھا تو اسلام کی طرف سے اس کی جان و مال کی حفاظت کی گارنٹی ہوتی تھی۔ مدینہ میں تجارت یا سیر کی غرض سے آنے والے غیر مسلموں کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری تھی۔ جسے انہوں نے پورا پورا نبھایا۔ حضور انور حضرت محمد مصطفی کے دور سے آج تک مسلمانوں کی یہ عادت رہی ہے کہ اگر مسجد کے دروازے پر غیر مسلم بھی آ جائے تو اس کے قیام و طعام کا بندوبست کیا جائے۔ قرآن مجید میں زکواة و خمس کی رقم کا ایک حصہ مسافروں کی خاطر تواضع کے لئے مختص کیا گیا ہے۔ نبی کے دور میں بیت المال کا کچھ حصہ مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے مخصوص کیا گیا تھا۔ مسلمان اپنے ہاتھوں سے اپنے دشمنوں کی مہمان نوازی میں مشہور رہے ہیں۔ خاتم الانبیا کے دربار میں جب حاتم طائی کی بیٹی اسیر کر کے لائی گئی تھی تو آپ نے اپنی عبا اس کے سر پر دے دی تھی۔ جب کسی صحابی نے دریافت کیا یا رسول اللہ یہ تو دشمن کی بیٹی ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا اگر یہ اپنے گمراہ باپ کے دربار میں سربرہنہ رہے اور محمد جیسے عادل کے دربار میں بھی سربرہنہ رہے تو ظالم و عادل میں امتیاز کیا رہے گا؟ اگرچہ دشمن کی بیٹی تھی مگر مہمان تھی، آپ نے اسیری کے باوجود اس کا لحاظ کر کے ایک طرف مہمان کی عزت واضح کی ،دوسری طرف ہیومن رائٹس کا زریں اصول بتایا کہ مذہب کے اختلاف کے سبب کوئی بھی شخص بنیادی سہولتوں سے محروم قرار نہیں دیا جا سکتا، مہمان کا وجود میزبان کے لئے باعث خیر و برکت ہوتا ہے جس گھر میں مہمان کھانا کھاتے ہیں اس میں اللہ کی خاص رحمت کا نزول ہوتا ہے لہٰذا روایات کی روشنی میں کبھی مہمانوں کے احترام و اکرام میں کمی نہیں کرنی چاہئے۔ کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ چونکہ مہمان ہمارے گھر آیا ہے اور ہم نے اسے کھانا کھلایا ہے۔ اس کا احترام کیا ہے اسے جگہ دی ہے با فضیلت تو ہم ہیں مہمان نہیں، چنانچہ روایت میں ملتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک خاص صحابی جناب ابو محمد وابشی خدمت مولا میں حاضر ہوا اور عرض کی:مولا! میں جب بھی صبح کو ناشتہ کرتا ہوں اور شام میں کھانا تناول کرتا ہوں۔ ہمیشہ آپ کے چاہنے والوں میں سے کچھ لوگوں کو اپنے دسترخوان پر مہمان بنا کر کھانا کھلاتا ہوں ،اس طرح میرا ہر دن مہمان نوازی میں بسر ہوتا ہے۔یہ سن کر امام صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اے ابو محمد!اگرچہ تم ایک گرانقدر کام کرتے ہو لیکن تمہارے مہمان،ہر حال میں تم سے زیادہ افضل و برتر ہیں۔
ابو محمد نے بڑے تعجب سے عرض کیا: مولا! یہ کیسے ممکن ہے جبکہ میں انہیں اپنے کھانے میں سے کھلاتا ہوں اور ان پر اپنا مال خرچ کرتا ہوں۔
امام جعفر صادق علیہ اسلام نے ارشاد فرمایا: اے ابو محمد! جس وقت تمہارے پاس مہمان آتے ہیں تو وہ اپنے ہمراہ اللہ کی بارگاہ سے کثیر روزی و رزق لیکر تمہارے گھر میں داخل ہوتے ہیں اور جب تمہارے گھر سے جانے لگتے ہیں تو تمہاری مغفرت کا سامان چھوڑ جاتے ہیں،اصول الکافی، جلد
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here