مواقع کی تلاش میں کشتی کے ذریعے یونان جانے والے پاکستانی نوجوان حادثے کا شکار ہو گئے ہیں۔ جاں بحق ہونے والے ستائس افراد کی شناخت ہو گئی ہے جبکہ پچاس سے زائد لاپتہ بتائے جا رہے ہیں۔ لاپتہ ہونے والوں میں 43 کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے جن کی یاد میں اتوار کے روز سوگ منایا گیا۔اقوام متحدہ اس واقعہ کو کئی حوالوں سے اہم قرار دے رہا ہے ۔ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حسب معمول حادثے کے بعد گیارہ انسانی سمگلروں کو گرفتار کر لیا ہے ۔بچ جانے والے ایک پاکستانی کا کہنا ہے کہ ڈھائی سو افراد کی گنجائش والی کشتی میں ساڑھے سات سو افراد کو سوار کرایا گیا تھا۔ پاکستانی حکام کا مزید کہنا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اطالوی حکام، رضاکاروں اور میری ٹائم ایجنسیوں سے رابطے میں ہیں۔ سفارتخانے نے مزید کہا کہ وہ پاکستانی کمیونٹی سے بھی رابطے میں ہے اور انہیں اس افسوسناک واقعے کے بارے میں تازہ ترین معلومات فراہم کر رہا ہے۔یہ بحری جہاز کئی روز قبل ترکی سے پاکستان، افغانستان، ایران اور کئی دیگر ممالک کے تارکین وطن کے ساتھ روانہ ہوا تھا اور کلابریا کے مشرقی ساحل پر واقع ایک سمندری تفریحی مقام کے قریب طوفانی موسم میں گھر کر تباہ ہو گیا۔ غریب ممالک کے نوجوانوں کی سمندر کے راستے مغربی ممالک آنے کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندری گزرگاہوں کو روکنا ضروری ہے ۔انسانی سمگلر تارکین وطن کو یورپ میں “بہتر زندگی کا سراب” پیش کرتے ہیں،لوگ اپنی جمع پونجی بیچ کر اسمگلروں کو مالا مال کرتے ہیں اور ایسے سانحات کاشکار بنتے ہیں۔ پوپ فرانسس اور دیگر عالمی شخصیات متعدد بار غیر قانونی تارکین وطن سے نرمی کی اپیل کر چکی ہیں، تارکین وطن کے حقوق کے لیے طویل عرصے سے آواز اٹھانے والی شخسیات کا کہنا ہے کہ حکومتیں اس سلسے میں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہیں ۔ اٹلی سمندری راستے سے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کے لیے اہم لینڈنگ پوائنٹس میں سے ایک ہے، بہت سیلوگ شمالی یورپ کے امیر ممالک کا سفر کرنا چاہتے ہیں۔ نام نہاد وسطی بحیرہ روم کے راستے کو دنیا کے خطرناک ترین راستے میں سے ایک کہا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے لاپتہ تارکین وطن پراجیکٹ نے 2014 سے اب تک وسطی بحیرہ روم میں 17,000 سے زیادہ اموات اور گمشدگیوں کا اندراج کیا ہے۔ تازہ حادثے سے قبل اس سال 220 سے زیادہ ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔ پاکستان خاص طور پر انسانی سمگلنگ کے مسئلے سے دوچار ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ اس ملک کو اپنی ٹائر 2 واچ لسٹ میں رکھتا ہے کیونکہ حکومت نے اسمگلنگ کو ختم کرنے کی کوششوں میں مجموعی پیشرفت کا مظاہرہ نہیں کیا۔پاکستانی حکومت کی نوجوانوں سے لاتعلقی ڈیپریشن کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے ۔ اس سے قبل پاکستان انسانی سمگلنگ کی روک تھام اور کنٹرول آرڈیننس 2002 پر عمل پیرا تھا، جس نے “انسانوں کی سمگلنگ کو روکنے کے لیے بنیادی اور سب سے مستند ٹول” کے طور پر کام کیا ۔ ایکٹ 2018 “PTPA” وفاقی سطح پر لاگو ہوتا ہے کیونکہ اس کا دائرہ کار پورے پاکستان تک پھیلا ہوا ہے، اس کا مقصد “افراد بالخصوص خواتین اور بچوں کی اسمگلنگ کو روکنا اور ان کا مقابلہ کرنا ہے۔ مزید برآں، ملک نے اسمگلنگ سے نمٹنے کے لیے ایک نیا پانچ سالہ قومی ایکشن پلان بھی تیار کیا تھا۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ ان اقدامات کو جاری رکھنے اور برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے اگرچہ مجموعی طور پر اپنی قانون نافذ کرنے کی کوششوں کو برقرار رکھا تاہم صنفی اسمگلنگ کی تحقیقات اور سزاوں میں کمی آئی۔ دور دراز علاقوں کی غریب بچیوں کو اسمگلر سمندری راستے سے باہر بھیج رہے ہیں ۔حالات اطمینان بخش نہیں ۔مزید خرابی یہ کہ کوئی ان کو ٹھیک کرنا نہیں چاہتا ۔ صوبائی سطح پر پنجاب واحد صوبہ ہے جو صنفی اسمگلنگ کے خلاف تمام سزاوں کے ساتھ ساتھ تحقیقات اور استغاثہ کی تمام قانون نافذ کرنے والی کوششوں کو نوے فیصد رپورٹ کرتا ہے۔یہ صورتحال انسانی اسمگلنگ سے نمٹنے کے لیے دوسرے صوبوں کے لیے مختص وسائل کی کمی کی علامت ہے، اسی لیے استغاثہ اور سزا کی شرح کم ہے۔ پچھلے دو سال میں نوجوانوں کی مایوسی بڑھی ہے ، المیہ یہ ہے کہ حکومت اور اس کے ذمہ دار اس صورتحال کا ادراک کر پا رہے ہیں نہ اس کی اصلاح کا بندوبست ۔ معاشی دباو اور حکمران اشرافیہ کی منہ زوری اس درجہ بڑھ چکی ہے کہ لوگ بیس پچیس لاکھ خرچ کر کے خطرناک سمندری سفر کرنے کو تیار ہیں۔وطن عزیز میں ہر کام خسارے کا شکار ہے بس سیاست ایک منافع بخش کاروبار ہے جس میں چند خاندان اپنا اجارہ بنائے ہوئے ہیں۔ انصاف ، صحت ، تعلیم ،روزگار ، امن و امان ، کوئی سہولت بھی عام شہری کے لئے نہیں ۔ ان حالات میں جمہوریت کے نام پر مخصوص گروہوں کا قوم پر مسلط ہوا المیوں کا سبب بن رہا ہے۔موت کے ساتھ پنجہ آزمائی کر کے نوجوان دولت مند ملکوں میں پہنچتے ہیں اور زندگی کی کامیابیاں سمیٹتے ہیں،یہ لوگ مغربی ملکوں میں اعلی مقام پاتے ہیں لیکن کیا یہ بات فراموش کی جا سکتی ہے کہ ریاست ان کو موت کے منہ میں دھکیلنے کی بجائے ترقی اور روزگار کے مواقع کیوں نہیں دے رہی ؟
٭٭٭