آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا مجھے دنیا میں تین چیزیں محبوب ہیں خوشبو ،عورت ،اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہییہ موضوع دراصل ہماری اور آپ کی زندگی کا موضوع ہے ہماری اور آپ کی زندگی کا مقصد ہے ہماری اور آپ کی زندگی کا حاصل ہیاگر نماز ہماری زندگی میں نہیں تو ہم کچھ بھی نہیں ہیں اگر ہم نمازی نہیں ہیں تو مسلمان بھی نہیں ہیں اگر نمازی نہیں تو امتی بھی نہیں ہے اگر ہم نمازی نہیں ہیں تو مومن و مسلم بھی نہیں ہیں اگر ہم نمازی نہیں ہیں تو ہماری کوئی پہچان کوئی شناخت بھی نہیں ہیحدیث میں ہے کہ جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی اس نے کفر کیا ایک اور حدیث نبی کریم صل وسلم نے فرمایا جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی وہ ہم میں سے نہیں اللہ اس بری ہے۔ اب ہمیں غور کرنا ہے کہ ہم کس طرح اپنی نمازوں کو آنکھوں کی ٹھنڈک سکون کا ذریعہ، غموں کا مداوا پریشانیوں کا حل ،بنا سکتے ہیں ان ساری باتوں کے لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن و حدیث پر عمل کریں آپ صلی اللہ علیہ وسلماورصحابہ تابعین اور صالحین کی زندگی کا مطالعہ کرکے اپنی نمازوں کو مغفرت اور نجات کا ذریعہ بنا سکتے ہیں۔ اللہ تعالی نے جتنی بھی شریعتں نازل فرمائی ان سب میں نماز فرض رہا ہے یعنی ہر نبی نے اپنے پیروکاروں کو اقامت صلو کا حکم دیا اور اس کو رائج کیا اور جب تک ان لوگوں کی یہاں نماز کا اجتماعی نظام درست رہا وہ ترقی کرتے رہیاور جب انہوں نے اس نظام میں خلل پیدا کیا ان کا شیرازہ بکھر گیابنی اسرائیل کا شیرازہ بکھرنے کا اور ان کے دینی روح پر موت طاری ہونے کا سبب یہی تھا کہ ان کے یہاں نماز باجماعت نظام ختم ہوچکا تھا ۔عیسائیت کے یہاں بھی نماز کا نظام انتہاء بے روح قسم کیپرئر میں تبدیل ہوتا چکا تھا اور اقرار گناہ کرکے معافی نامہ حاصل کر لینے کا رواج جڑ پکڑ گیا تھا۔ یہ قومیں اپنی اصلیت پر اب کبھی نہیں آ سکتی کیونکہ انہوں نے نماز باجماعت اور عبادت باجماعت کا اصلی طریقہ کھو دیا ہے ۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی بگڑی اور بکھری ہوئی مسلمان قوم میں دینی روح کو پھر سے اجاگر کرنے کی کوشش کریں ایک خاص پروپیگنڈے کے تحت ہمیں ہماری عبادتوں سے دور کیا جارہا ہے اس میں ہمارے دشمنوں کی چالیں بھرپور ہیں انھیں پتا ہے کہ ان کی اخلاقی تباہی کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اپنی نماز با جماعت کے اصول کو ختم کر دیا وہ ہمیں بھی اسی ہتھکنڈے سے ذبح کرنا چاہتے ہیں آج ہم نے اس کی اہمیت کو نظرانداز کردیا ہے کہ جس طریقے سے اس کی تبلیغ ہونی چاہیے یا کرنی چاہیے اس کو کھیل تماشہ بنا لیا ہے تو ہماری امت بھی پارہ پارہ ہو رہی ہے نمازایمان اور کفر کے درمیان تفریق کرتی ہیجس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی اس نے کفر کیا نماز کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قافلے کو جنگ کے لئے روانہ کرتے تو فرماتے جس بستی سے اذان کی آواز آئے وہاں حملہ نہ کرنا اور جس بستی سے اذان کی آواز نہ آئے وہاں حملہ کر دینا حضور اکرم صلی وسلم اپنی زندگی کے آخری وقت بھی نماز کے بارے میں اپنی امت کو ڈراتے رہے ایک صحابی فرماتے ہیں کہ آپ صلی وسلم نے فرمایا ساری عبادتوں میں اللہ تعالی کوسب سے زیادہ محبوب عبادت وہ نماز ہے جو اول وقت پر پڑ ہی جائے ۔یہ اللہ تعالی نیاپنے حبیب کومعراج کی شب عطا فرمائی تھی نماز رب اور اس کے حبیب کے درمیان ایک عظیم ملاقات کا نام ہے جسے انعام کے طور پر نوازا گیا یہ ہدیہ ہے یہ تحفہ ہے جسے اللہ تعالی نیاپنے محبوب بندے کو اور اس کے ماننے والوں کو عطا فرمائی ہے اسی لئے نبی رسول اکرم صلعم نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار فرمایا اور مشکل کے وقت اس کے دامن میں پناہ لیتے تھے جب کبھی کوئی سنگین مسئلہ درپیش ہوتا آپ صلی اللہ وسلم اللہ تعالی سے مناجات فرماتے اور اس سے شکوہ کرتے۔(جاری ہے)
وہ آپ کی دعاں کو سنتا قبول کرتا ، آپ کو ہر طرح کے غموں سے نجات مل جاتی اور سکون میسر آجاتا مسلم میں ابوہریرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلعم نے فرمایا اللہ کہتا ہے کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر لیا ہیاور میرے بندے کو جو کچھ مانگتا ہے وہ ملتا ہے بندہ کہتا ہے الحمد للہ رب العالمین تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میریتعریف کی ۔بندہ کہتا ہے ، الرحمان رحیم اللہ تعالی فرماتے ہیں میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی بندہ کہتا ہے مالک یوم دین تو اللہ تعالی فرماتے ہیں میرے بندے نے میری عظمت بیان کی بندہ کہتا ہے ایاک نعبد وایاک نستعین اللہ تعالی فرماتا ہے کہ یہ بات میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کو ملے گا جو کچھ کہ وہ مانگتا ہے۔ جب بندہ اھدنا صراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم والضالین کہتاہے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کو ملے گا جو کچھ وہ مانگتا ہے نماز کی اہمیت کا اندازہ قرآن کی اس آیت سے ہیکہ جب فرشتے دو خیوں سے پوچھیں گے کہ تمہیں کون سی چیز جہنم میں لیگی تو وہ کہیں گے کہ ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے لم نک من المصلین یعنی جو ایمان لانے کے بعد نماز سے بیگانہ رہے ان کے لئے کوء فلاح آخرت میں نہیں ہے ہرچیز کے دو پہلو ہوتے ہیں اس طرح نماز کے بھی دو پہلو ہیں ایک ظاہری پہلو دوسرا باطنی پہلو ،پہلے کو آپ نماز کی صورت اور دوسرے کو آپ نماز کی سیرت کہہ سکتے ہیں ابن مسعود نے ایک بار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا عمل اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے فرمایا ایک وقت پر نماز ادا کرنا آپ صلعم نے فرمایا بدترین چوری نماز کی چوری ہے یعنی رکوع و سجود ٹھیک سے نہ کرنا۔ نماز کی صورت میں اس کے تمام ظاہری پہلو آ جاتے ہیں یعنی طہارت وضو ستر پوشی نماز کے ارکان وقت کی پابندی کرنا اور اس کو وقت پر ادا کرنا وغیرہ اسی ضمن میں ایک حدیث ہے آپ نے فرمایا نماز ادا کرو جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو یعنی ہماری نمازوں کو زیادہ سے زیادہ حضرت محمد صلی وسلم کی نماز سے مشابہ ہونا چاہیے اور ہمیں ہر نماز میں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے اور یاد رکھنا چاہییکے نہانے استنجا کرنے اور وضو میں بھی انہیں طریقوں کو فالو کریں گے جیسا کہ آپ نے اپنے صحابہ کو سکھایا ہے وضو میں کس حصے کو کتنی بار کہا تک دھونا ہے وضو سے پہلے نیت کرنا ہے اور وضو کے اختتام پر دوسرا کلمہ پڑھنا ہے اس کے بعد اللہم جعلنی من التوابین وجعلنی من المتطہرین پڑھ لینے سے قلب کا بھی وضو ہو جاتا ہے ۔اس کے بعد نماز میں کھڑے ہونا رکوع اور سجود میں کس طرح کا ٹھہراکس طرح ہونا رکوع کے بعد سیدھا کھڑے ہونا دونوں سجدے کے درمیان کمر کو بالکل سیدھا رکھنا اگر امام کے پیچھے ہو تو اتنی دیر ٹھہرناکہ تین بار رب اغفرلی کہنااور اس دوران کوء عمل امام سے پہلے نہ کرنا ۔ ذہنی اور جسمانی طور پر چوکس رہنا کہ نماز میں کوئی غلطی نہ ہو یعنی کلی طور دھیان نماز پر ہو اگر امام کے پیچھے ہیں تو اس کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
نماز کی ظاہری صورت کے بارے میں سورہ انسا کی اکیسویں رکوع میں اللہ تعالی نے اس طرح فرمایا ہے کہ وہ نماز کی طرف کسمساتیہوئے آتیہیں محض لوگوں کو دکھانے کے لئے اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں ایسے لوگوں کو منافق کہا گیا ہے اور مومن کے بارے میں اس طرح کہا گیا ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور کہیں پر اس طرح کہا گیا ہے استعینوا بالصبر والصلا کے وہ صبر اور نماز سے مدد لیتے ہیں۔ اب نماز کے باطنی پہلو یعنی نماز کی سیرت پر غور کرلیتیہیں اگر ظاہری سارے طریقے بالکل ٹھیک ہیں اور دل اور دماغ اگر رب کی طرف راغب نہیں ہے تو کیا نماز ہو جائے گی ؟ نماز کی سیرت میں اس کے تمام باطنی پہلو آ جاتے ہیں جو کسی دوسرے کو نظر نہیں آتے صرف پڑھنے والے اور سننے والے کو پتہ ہوتا ہے کہ پڑھنے والے نے کیا اور کیسی نماز پڑھی ہے۔ نماز میں تقوی یعنی خوف خدا خشوع و خضوع نماز کے دوران اللہ تعالی سے کتنا لو لگا ہوا ہے اور دل و دماغ کتنا دنیا میں سیر کر رہا ہے کہ شکل تو نماز کی سی بن گئی لیکن سیرت میں کوئی حسن نہ رہاتو ایسی نماز کو بدترین نماز کہا گیا ہے محمد نے فرمایا بہت سے نماز پڑھنے والوں کے نماز ایسی ہوتی ہے جسے اللہ تعالی پرانے کپڑے میں لپیٹ کر اس کے منہ پر دے مارتا ہے اور کہیں پر اس طرح فرمایا کہ کسی کی نماز اس جگہ سے اوپر ہی نہیں اٹھتی ہے سورہ مومنون میں اللہ تعالی نے جومومنین کی خصوصیات بتائی ہے اس میں یہ ہے کہ جو لوگ اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں وہی مومن ہیں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جب نماز کے لیے کھڑے ہو تو اسے اپنی آخری نماز سمجھو آپ وسلم نے فرمایا جب عبادت کرو تو یہ محسوس کرو کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم یہ محسوس نہ کر سکو تو کم از کم یہ محسوس کرو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے آپۖ نے فرمایا کہ نماز پڑھنے سے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جیسیسوکھے درخت کے پتے نماز بے حیائی اور فحاشی سے روکتی ہیان احادیث پر تھوڑا سا غور کرلیں تو ہماری نمازیں بہتر ہوسکتی ہیں ۔ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمایا اگر تمہارے گھر کے سامنے کوئی نہر ہوجس میں تم پانچ دفعہ دن میں نہا تو کیاتمہارے جسم پر کوئی میل کچیل باقی رہے گا تو صحابہ کرام نے فرمانہیں یا رسول اللہ بالکل اسی طرح جو شخص پانچ دفعہ دن میں اللہ کے آگے کھڑا ہو کر نماز پڑھتا ہے وہ گناہوں سے ایسے ہی پاک ہو جاتا ہے۔ گویا کہ نماز ہم کو ایک ایسے نظام تربیت کی طرف لے جاتا ہے کہ ہم خود اپنے نفس کے نگہبان بن جاتے ہیں اور یاد رہتاہے کہ ہم ہر وقت اپنے بنانے والے کی نگاہ میں ہوتے ہیں آپ صل وسلم نے فرمایا کہ آخری زمانے میں نمازی تو بہت ہوں گے لیکن نماز کی روح نہ ہوگی اس لیے نماز کے درمیانی اوقات میں بھی اپنے اعمال کا چیک اینڈ بیلنس کرتے رہنا چاہیے تاکہ ہماری آنکھیں ،کان ،ہاتھ، پیر گناہوں سے محفوظ رہیں اور زبان پر پر اللہ کا ذکر رہے گویا جسم کا ہر حصہ ایک نماز کی وجہ سے متقی اور پرہیزگار بن جاتا ہے لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور ہماری نماز سے ہم کو یہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے تو پھر ایسے لوگوں کے لیے بڑی بری وعید ہے کہ ایسے شخص کی نماز پرانے کپڑے میں لپیٹ کر اس کے منہ پر دے ماری جاتی ہیابراھیم بن ادھم نماز پڑھنے کے بعد منہ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتے تھے لوگوں نے پوچھا آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں میری نماز میرے منہ پر نہ دے ماری جائے جو لوگ نماز کا حق ادا کرتے ہی صورت اور سیرت دونوں اعتبار سے تو نماز ان کو دعائیں دیتی ہوئی جاتی ہے اور ایسی نماز روشن اور خوشبودار ہوتی ہے اور فرشتے اس نماز کو آسمان پر لے جاتے ہیں وہ نماز ،نمازی کے لئے دعا کرتی ہے کہ اللہ تعالی تیری حفاظت کرے جس طرح تو نے میری حفاظت کی ہے اور اگر نماز اچھی طرح ادا نہیں کی جاتی ہے تو نماز تاریک رہتی ہے اور فرشتوں کو اس نماز سے کراہت آتی ہے اور وہ اس نماز کو آسمان پر نہیں لے جاتے اور وہ نماز ،نمازی کے لئے بد دعا کرتی ہے کہ جس طرح تو نے مجھے ضائع کیا خدا بھی تجھے ضائع کریے اسے لئے چاہیے کہ نماز کو پوری طرح ادا کریں دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر ہم کسی کو دیکھیں کہ مکمل نماز نہیں پڑھتا تو کہیں کہ اپنی نماز کو کامل کرو حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی نماز پڑھنے کی طرف اشارہ کیا ہے اور نماز کی چوری سے منع فرمایا ۔ مسجد میں ایک شخص کو جلدی جلدی نماز پڑھتے دیکھافرمایا تو اگر ایسے نمازیں پڑھتا ہوا مر گیا تو امت محمدیہ پر نہیں مرگا اس کے علاوہ کچھ غیر ارادی غلطیاں نماز میں ہوتی ہیں حضرت عثمان بن عاص نے ایک مرتبہ حضور سے عرض کیا میری نماز اور میری قرآت کے درمیان شیطان حائل ہو جاتا ہے اور وسوسے ڈالتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شیطان ہے اس کا نام (خنزب )ہے تو جب کبھی تم وسوسے میں مبتلا ہو تو اللہ کی پناہ مانگ لو اوربائیں جانب تھکتھکا دیا کرو چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور اللہ تعالی نے میرے وسوسے دور کر دیئے نماز بہرحال ایک مجاہدہ ایک مشقت کا کام ہے کیونکہ کسی چیز کو ظاہری طور پر بنانا اور باطنی طور پر سوارنا اور وہ بھی دن میں پانچ بار ہفتے میں ایک جمعہ کو عیدین کی نمازیں یہ سب ایک مسلسل جدوجہد کا کام ہے جو نمازی کو مسجد کا عادی بنا دیتا ہے امت مسلمہ کو دوسری عبادت کے لیے تیار کرتا ہے جہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور انتہائی صورت حال میں بھی میدان جہاد میں جمے رہنے کا درس سکھاتا ہے کیونکہ بار بار کے بعد بھی وہ رکتا نہیں ہیاس خیال سے ہمت آتی ہیاگلی نماز اس سے بہتر ہوگی نماز ہماری دنیا اور آخرت دونوں کے لئے نفع بخش ہے آخرت کے اعتبار سے نماز کافائدہ یہ ہو گاکہ جب موت کے وقت فرشتے نظر آئیں گے تو اجنبیت کا احساس نہ ہوگا کچھ کرنے کے بعد کچھ نہ کچھ انعام کی توقع ہوگی اور محنت کرکے تھک جانے کے بعد آرام کی خواہش بھی دوسرے یہ کہ میدان حشر میں اللہ کے حضور حاضر ہوتے ہوئے وہ مومن زیادہ شرمسار اور زیادہ خوف زدہ نہ ہوگا چونکہ زندگی میں وہ روزانا پانچ بار اللہ کے حضور حاضری لگا چکا ہوگا اس لیئے اس کی حالت غیر حاضر بھگوڑے کی سی نہ ہوگی ایک حاضر باش آدمی یقینا غیر حاضر سے بہتر ہوتا ہے اور جزا کے معاملے میں زیادہ پر امید ہوتا ہے آخر میں حافظ ابن قیم رحم اللہ کی تحریر سے نماز کے دنیاوی اور اخروی فائدے بتاتے ہوئے اس موضوع کا اختتام کرتی ہوں کہ نماز روزی کو کھینچنے والی ہے ۔صحت کی محافظ ہے ۔بیماریوں کو رفع کرنے والی ہے ۔دل کو تقویت پہنچاتی ہے چہرے کو خوبصورت اور منور کرتی ہے ۔جان کو فرحت بخشتی ہے اعضا میں تازگی پیدا کرتی ہے -کاہلی کو رفع کرتی ہے ۔شرح صدر کا سبب ہے ۔روح کی غذا ہے دل کو منور کرتی ہے ۔اللہ کے انعام کی محافظ ہے۔عذاب الہی سے حفاظت ہے ۔شیطان کو دور کرتی ہے رحمان کو قریب کرتی ہے ۔غرض روح اور بدن کی حفاظت میں اس کو خاص دخل ہے دونوں چیزوں میں ایک عجیب تاثر پیدا کرتی ہے نیز دنیا اور آخرت کی پریشانیوں کو دور کرنے میں اور دونوں جہان کے منافع پیدا کرنے میں اس کو بہت خصوصیات حاصل ہے اور واقعی اگر ہم ویسے نمازی بن جائیں جیسے اللہ کو مطلوب ہیں تو ہم خود دیکھیں گے کہ!
ملتا ہے کیا نماز میں سجدے میں جا کے دیکھ لے
ہوگا خدا کے سامنے سجدے میں جا کے دیکھ لے
وما علینا الا بلاغ
٭٭٭