فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
36

محترم قارئین! مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ حضرت سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نبی پاکۖ کے سچے غلام اور عاشق تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت کا عرصہ تقریباً بارہ سال پر محیط ہے، نبی پاکۖ کی دو شہزادیاں حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا اور حضرت کلثوم رضی اللہ عنھا یکے بعد دیگرے آپ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں رہیں اسی وجہ سے آپ کو ذوالنورین کا لقب دیا گیا آپ کی فضلیت میں بہت ساری قرآنی آیات اور احادیث مذکور ہیں۔ انہی آیات میں سے پارہ نمبر26سورہ فتح کی آیت نمبر10ہے۔ جس کا شان نزول یہ ہے: حضورۖ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ساتھ عمرہ کے ارادہ سے مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے۔ جب آپۖ صحابہ کرام علیھم الرضوان کے ہمراہ حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو حضورۖ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو قریش مکہ کی طرف مکہ مکرمہ میں پیغام دے کر بھیجا کہ انہیں جاکر کہہ دیں کہ ہم لڑنے یا جنگ کرنے کے ارادہ سے نہیں آئے بلکہ ہم تو صرف اللہ کے گھر کی زیارت اور طواف کعبہ کے لئے آئے ہیں۔ چنانچہ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ محبوب خداۖ کا یہ پیغام لے کر بحیثیت قاصد قریش مکہ کی طرف چلے گئے جب آپ نے انہیں نبی کریمۖ کا یہ پیام سنایا تو وہ کہنے لگے کہ ہم اس سال تو مسلمانوں اور ان کے آقاۖ کو مکہ مکرمہ نہیں آنے دیں گے ہاں اگر تم طواف کعبہ کرنا چاہتے ہو تو تمہیں اجازت ہے۔ آپ نے فرمایا: میں اپنے آقا کے بغیر طواف نہیں کروں گا اس کے بعد آپ مکہ مکرمہ میں رہنے والے مسلمانوں کے پاس انہیں عنقریب فتح مکہ کی خوشبخری سنانے کے لئے تشریف لے گئے اس تاخیر کی وجہ سے ادھر مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ کفار نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا ہے۔ اس پر مسلمانوں کے دلوں میں قتل عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کا جوش پیدا ہوگیا تو نبی کریمۖ نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے جہاد پر بیعت لی جب سب بیعت کر چکے تو حضورۖ نے اپنے بائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا یہ ہاتھ عثمان رضی اللہ عنہ کا ہے پس آپ نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا میں خود عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت لیتا ہوں۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس کا شان نزول اوپر بیان ہوا ہے ترجعہ: ”وہ جو تمہاری بیعت کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے بیعت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔ ”ماشاء اللہ: اس سے بڑھ کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی عظمت وشان اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کے ہاتھ کو حضور ۖ نے اپنا ہاتھ کہا اور حضورۖ کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ ہے لہذا ہاتھ عثمان غنی رضی اللہ عنہ اللہ کا ہاتھ ہے حاجی حج کرتا ہے کہ اللہ راضی ہوجائے۔ نمازی نماز پڑھتا ہے کہ اللہ رضی ہوجائے مجاہد جہاد کرتا ہے کہ اللہ راضی ہوجائے۔ سخی سخاوت کرتا ہے کہ خدا راضی ہو جائے قاری قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے کہ اللہ راضی ہو جائے۔ عابد عبادت کرتا ہے کہ اللہ راضی ہو جائے الغرض ہر ایک چاہتا ہے کہ اللہ راضی ہو جائے مگر خوش قسمت ہیں صحابہ کرام علیھم الرضوان جب انہوں نے حضور نبی کریمۖ کے دست حق پرست پر بیعت کی تو خدا تعالیٰ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ ان ایمان والوں سے راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کرتے تھے” معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ تمام صحابہ کرام علیھم الرضوان سے راضی ہے تو جس سے اللہ راضی ہوجائے وہ جنت میں داخل ہوگا وہ لوگ بڑے بدبخت ہیں جو صحابہ کرام علیھم الرضوان پر زبان درازیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگ جہنمی ہیں اور شقی وبدبخت وملعون ہیں بہرحال حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا درجہ بہت زیادہ ہے۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنھا سے روایات ہے کہ حضور سرور کونین ۖ نے ارشاد فرمایا: ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے میرا رفیق جنت میں عثمان ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ حضورۖ نے ارشاد فرمایا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سفارش سے ستر ہزار جہنمی جن پر آگ واجب ہوچکی ہے، بلاحساب جنت میں داخل ہوں گے۔
حضرت ام المئومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ ایک دن حضورۖ گھر میں لیٹے ہوئے تھے اور آپ کی پنڈلی مبارکہ ننگی تھی دروازے پر دستک ہوئی پوچھا کون ہے؟ جواب آیا صدیق، آپ نے اندر آنے کی اجازت دے دی۔ آپ نے حضورۖ سے کچھ گفتگو کی اتنے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے دستک دی اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپۖ نے اجازت دے دی آپ نے بھی اندر آکر کچھ باتیں کی تھیں کہ دروازہ کھٹکا پوچھا گیا کون؟ جواب ملا عثمان، اندر آنے کی اجازت ملے تو اندر آئے۔ اتنے میں حضورۖ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑوں کو درست کرلیا جب سب چلے گئے تو حضر ام المئومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے عرض کی یارسول اللہ! میرے ابا جان حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے آپ ایسے ہی تشریف فرما رہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو آپ اپنی حالت پر لیٹے رہے لیکن جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو آپ سیدھے بھی ہوئے اور پنڈلی کو بھی ڈھانپ لیا ایسا کیوں ہوا؟ تو آپۖ نے فرمایا: اے عائشہ ! کیا میں اس سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے درجات بنلد فرمائے اور آپ کے فیضان جرات بہادری اور زہدو تقویٰ سے وافر حصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here