عید الاضحیٰ گزر گئی، فرزندانِ توحید نے نہایت مسرت اور خشوع و خضوع سے سنت ابراہیمی پر عمل کیا۔ لاکھوں مسلمانوں کو فریضۂ حج کی سعادت حاصل ہوئی، ایک خبر کہ اس سال میدان عرفات میں حجاج کرام کی تعداد سب سے زیادہ رہی۔ ایک جانب تو دین مبین کے پیروکاروں کے مثالی و عقیدتمندانہ اظہار و اسلام کی آفاقیت کے مظاہر تھے تو دوسری جانب سویڈن میں شیطان کے چیلوں اور اسلامو فوبیا کے منحوسوں نے کتاب الٰہی کی بے حرمتی کی نفرت انگیز حرکت سے سارے عالم اسلام کو غم و غصہ کی اتہا گہرائیوں میں ڈال کر عالمگیر احتجاج پر مجبور کر دیا ہے۔ مسلم اُمہ اسلام دشمن قوتوں خصوصاً مغربی دنیا کیخلاف سراپا احتجاج ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے حکمران، علمائ، رہنما اور ہر شعبے کیساتھ مسلم عوام غصہ کی کیفیت اور مقدس کتاب کی بے حرمتی کے حوالے سے شعلہ جوالا ہیں۔ شہر شہر مظاہرے ہو رہے ہیں، کتاب الٰہی کی تقدیس کے اظہار کئے جا رہے ہیں۔ مسلم اُمہ کے اتحاد کی تنظیم او آئی سی نے فوری اجلاس منعقد کر کے اس کافرانہ اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے عالمی ممالک، طاقتوں خصوصی طور پر مغربی دنیا اور اقوام متحدہ سے اسلاموفوبیا کے شیطانی عمل کیخلاف سخت اقدام کا مطالبہ کیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ اقوام متحدہ سمیت کسی بھی ملک یا ادارے نے او آئی سی کے مطالبے کو سنجیدہ نہیں لیا اور نہ کسی متعینہ اقدام کا اس فتنے کو کُچلنے کا اظہار کیا ہے۔ البتہ روس کے صدر پیوٹن نے یہ وضاحت کر دی ہے کہ مذہبی منافرت کیخالف ہمارا واضح قانون ہے اور مرتکب کو سزا دی جاتی ہے۔ سویڈش حکومت نے تو اس گستاخانہ اقدام کو انفرادی قراردے کر حکومتی یا ریاستی ذمہ داری سے مبّرا ہونے کی کوشش کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم اُمہ دنیا کی دوسری بڑی مذہبی آبادی (عیسائیت کے بعد) ہے۔ ایک جائزے کے مطابق اس وقت مسلمانوں کی تعداد 2.01 ارب ہے جو عالمی آبادی کا 24 فیصد سے زائد ہے، او آئی سی کے رکن ممالک کی تعداد 57 ہے جو اقوام متحدہ کے اراکین کا ایک تہائی بنتا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود وہ کون سے عوامل ہیں جو اسلاموفوبیا اور دین مبین کی گستاخی کی شیطانیت کا قلع قمع کرنے میں حائل ہیں۔ وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ عالم اسلام کے تمام حکمران، رہنما (مذہبی، سیاسی، معاشرتی و عوامی) حتیٰ کہ عوام بھی اپنی اغراض، مصلحتوں اور مفادات کی دلدل میں بُری طرح دھسنے ہوئے ہیں۔ کہیں اقتدار کے تحفظ کے معاملات ہیں تو کہیں معاشی، جغرافیائی و کاروباری مجبوریاں آڑے آتی ہیں۔ تفصیل میں کیا جائیں سارا عالمی منظر نامہ اس حوالے سے ایک کُھلی کتاب ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آنے والا موجودہ عالمی منظر کا واحد ملک ہے، واحد اسلامی نیوکلیائی ریاست ہے۔ اگست میں پاکستان کے قیام کو 76 سال مکمل ہو جائیں گے لیکن صد حیف آج بھی ہم عالمی ممالک کی صفوں میں تمام تر صلاحیتوں، وسائل اور افرادی قوت کے باوجود عالمی و برادر ممالک کی نظر میں اپنا کوئی مقام نہ بنا سکے ہیں۔ ہمار اہی ماضی کا ایک بازو بنگلہ دیش اپنی معاشی ترقی اور معاشرتی کامیابیوں کے سبب ہم سے بہت آگے نکل چکا ہے۔
60ء کی دہائی میں پاکستان اپنی صنعتی و معاشرتی، ترقی و استحکام کے باعث ایشیئن ٹائیگر کہلاتا تھا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ایک کُھلی کتاب ہے، ہمارا گزارہ قرضوں اور امداد پر بھی ہوتا رہا ہے۔ آج ہماری حالت یہ ہے کہ ملک کا وزیراعظم خود یہ کہہ اُٹھا ہے ”میں جب بھی دوستوں کے پاس جاتا ہوں تو ان کے چہرے پر لکھا ہوتا ہے، یہ پھر آگیا مانگنے”۔ سوچنے کی بات ہے کہ 60ء کی دہائی میں ہماری معاشی ترقی کے باعث جنوبی کوریا نے اپنی معاشی تندرستی کیلئے ہمارے وزیر معاشیات و منصوبہ بندی کی خدمات حاصل کر کے اپنے معاشی مستحکم مقام کو حاصل کر لیا ہے تو آج ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ آج ہم کاسۂ گدائی لے کر عالمی معاشی اداروں، ممالک و دوستوں کے محتاج ہو چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ترلے منتیں کر کے اور چین، سعودیہ و خلیجی ممالک سے مدد حاصل کر کے خصوصاً آئی ایم ایف سے 3 بلین ڈالر ملنے کے بعد حکمران شادیانے بجا رہے ہیں اور بہتر معاشی مستقبل کی نوید سنا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے لئے جانیوالے قرضے کی شرائط پر عملداری کیلئے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں کیا وہ قوم کے حالات و زندگی بہتر بنا سکیں گے تجزئیے اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ مہنگائی مزید بڑھ جائیگی۔ ٹیکسز میں اضافہ بالخصوص سپر ٹیکس کی لیوی کاروباری و تجارتی شعبوں کو بھی متاثر کریگی۔ سب سے بڑھ کر آئی ایم ایف و دیگر ممالک کے قرضے واپس کرنے کیلئے کیا منصوبہ بندی مرتب کی جانی ہے۔
سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ کیا ہمارا ٹیکس کا نظام صحیح خطوط پر ہے، دنیا بھر میں ٹیکس کا نظام مجموعی آبادی کی بنیاد پر نافذ العمل ہے، ہر ملک ہر ریاست و شہر میں ہر فرد و خاندان کو اپنی آمدنی (اگر کوئی بیروزگار بھی ہو) کے گوشوارے جمع کروانا لازم ہوتا ہے جبکہ ہمارے ملک میں ملازمت پیشہ یا صنعت کار و سرمایہ کار بڑے تاجر ہی ٹیکس نیٹ میں آتے ہیں اور ہوتا یوں ہے کہ اس اضافے کا عام آدمی پر بوجھ پڑتا ہے۔ 76 برس میں ہم مکمل ٹیکس نیٹ کا نفاذ نہیں کر سکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ معیشت کا استحکام سیاسی استحکام سے منضبط ہوتا ہے لیکن ہمارے سیاسی و حکومتی نظام کا باوا آدم ہی نرالا جو حکمران آتے ہیں اپنی معاشی خوشحالی و صحت پر توجہ دیتے ہیں اور ملک و عوام کی معاشی ضروریات و بہتری کیلئے قرضوں، گرانٹ اور امداد پر انحصار کرتے ہیں اور یہ بھی اپنے اللوں تللوں پر اُڑاتے ہیں، اس کی تازہ ترین مثال چیئرمین سینیٹ (موجودہ و سابق) کیلئے بے تحاشا مراعات، تنخواہوں و سہولیات میں اضافے کی تفصیل یقیناً آپ کے علم میں آچکی ہوں گی۔ یہ کس قدر ظلم کی بات ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں 40 فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں،ا س کے پارلیمنٹیرین عیش و عشرت اور لوٹ مار عوام کے پیسے پر کر رہے ہیں، یہی نہیں ان میں بھی بیشتر ٹیکس بھی نہیں دیتے یا غلط اعداد و شمار بلکہ نان فائلر کی کیٹیگری کے توسط سے چور بازاری کرتے ہیں۔ ظلم تو یہ بھی ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں سے بھی زیادہ اقتدار کی باریاں لینے والے پھر لنگوٹ کس کر اقتدار میں آنے کیلئے آگئے ہیں۔ اس بار اکھاڑہ لندن کی جگہ دبئی ہے اور ملاکھڑے کے قواعد بھی ان آقائوں کی مرضی سے ہیں جو ان کو بھیک دیتے ہیں۔ یہ چور، لٹیرے اور منگتے بھلا کیا معیشت کو بہتر کرینگے، کیا ٹیکس کا اجتماعی نظام لائیں گے، لوٹ مار کرینگے اپنے خزانے بھریں گے اور جب پھر وقت پڑیگا تو کاسۂ گدائی لے کر قرض، امداد و گرانٹ کیلئے آقائوں کی خدمت میں پہنچ جائیں گے۔ کیا پاکستان اور عوام کی قسمت میں یہی لکھا ہے!
کاش کوئی مسیحا آئے جو پاکستان میں سیاسی و معاشی استحکام کا یقین دلا سکے۔
٭٭٭