فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
86

فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! بعض حضرات اپنی کم علمی یا پھر کو رباطنی کی وجہ سے میلاد مصطفیٰۖ کے لئے لفظ ”عید” کا استعمال انتہائی برا تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ اہل تحقیق کے نزدیک یہ کوئی قابل گرفت عمل نہیں ہے، مرقات شریف میں علامہ راغب رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے منقول ہے۔ترجمعہ: عید لغوی اعتبار سے اس دل کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے اور اصطلاح شرع میں یوم فطر اور یوم نحر کو کہتے ہیں اور جبکہ شریعت میں سُرور کے لئے مقرر کیا گیا ہے جیسا کہ نبی علیہ الصّلواة والسّلام نے فرمایا کہ ایام منیٰ کھانے پینے کے اور واجبات کے دن ہیں تو عید کا دن ہر مسرت کے لئے استعمال ہوسکتا ہے(مرقات ص243جلد3) حضرت امام ملا علی قاری اور امام راغب اصفہانی رضی اللہ عنھما کی تصریح سے ثابت ہوا کہ لفظ”عید” ہر خوشی اور انبساط کے موقع پر استعمال کرنا جائز ہے۔ اب ذرا ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے کہ اس دن سے بڑھ کر اور کون سا دن لائق انبساط ٹھہرتا ہے جس دل حاصل کائنات، کائنات میں رونق افروز ہوئے؟ یہ تو وہ مبارک دن ہے کہ جس کے صدقے میں ہمیں دوسری عیدیں دیکھنے کو ملیں۔ اسی دن کی برکت سے غم کدہ زیست میں بشاشقوں کے سامان تیار ہوئے۔ غلاموں کی تقدیریں بدل گئیں، بیوائوں کی زندگیاں نکھراُ ٹھیں۔ یتیموں کے سلگتے ہوئے زخموں پر مرہم رکھ گیا،بلبلاتی انسانیت کو قرار کی دولت عطا کی گئی۔ یہ زلف بردوش کون آیا، یہ کس کی آہٹ سے گُل کھلے ہیں۔ مہک رہی ہے فضائے ہستی، تمام عالم بہار سا ہے” آیئے قرآن پاک سے پوچھ لیتے ہیں کہ کسی مسرت و خوشی کے دن کو عہد کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟ حضرت سیّدنا عیٰسی علیہ السّلام بارگاہ کبریا میں عرض کرتے ہیں:ترجمعہ:”اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! ہم پرآسمان سے ایک خون نازل فرما کہ وہ ہمارے لئے عید ہو، ہمارے اگلے پچھلوں کی”(پ7ع5) ذرا توجہ کیجئے کہ حضرت عیٰسی علیہ السّلام’مائدہ” یعنی خون کے نازل ہونے کے دن کے عید کہہ رہے ہیں کیا یہ لوگ ہمارے آقا علیہ الصّلواة والسّلام کے تشریف لانے کے دن کو نزول فائدہ کے دن سے بھی کم تر سمجھتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو فساوت قلبی کی بدترین مثال ہے۔ بخاری شریف کتاب الایمان میں روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ایک یہودی کہنے لگا کہ اے امیر! تمہاری کتاب میں ایک ایسی آیت ہے اگر ہم پر وہ نازل ہوتی تو ہم اس کے”یوم نزول” کو عید قرار دے لیتے۔ آپ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: وہ کونسی آیت ہے؟ وہ بولا ”اَلیوَمَ اَ کمَلتُ لَکُھ الایة(سورة مائدہ پارہ نمبر6ع 1) ترجعہ: آج میں (اللہ) نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے دین اسلام کو چننے کے لئے راضی ہوگیا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک ہم نے اس دن(کی اہمیت) اور اسی کے مقام(نزول) کو ذہن نشین کرلیا۔ حضورۖ اس دن عرفات میں تھے اور جمعتہ المبارک کا دن تھا؟ اس روایت سے معلوم ہوا کہ ایک آیت کا نازل ہونا بھی اتنی خوشی کا حامل ہے کُجہ ان مبارک لمحات کے لئے ”عید” کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے۔ سّیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ وہ لمحات میدان عرفات میں گزر رہے تھے۔ گویا اہل ایمان کے لئے ”عید” کے ہی لمحات تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے اپنی رضا کا اظہار فرمایا تھا اور ان کے لئے دین اسلام کو منتخب کرلیا تھا۔ ان کی اسناد ایمانی پر مہر توثیق ثبت کردی تھی۔ ذرا سوچنے کی زحمت تو گوارا ہو کہ یہ تمام تر نعمتیں آخر کس کا صدقہ مل رہی ہیں؟ قرآن پاک کی آخری آیت نازل ہو تو عید کی خوشیاں حاصل ہوجائیں اور اگر رسولوں کا سردار تشریف لے آئے تو کیا ماتم کرنا چاہئے؟ باطل نوچنے چاہیئں؟ سروں میں خاک ڈالنی چاہئے؟ ہاں یہ کام میلاد مصطفیٰۖ کے دن سر انجام دینا ابلیس لعین کی ضرور عادت ہے ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور حیدر کرار علی المرتضیٰ کی عادت نہیں۔اہل اسلام کا طریقہ نہیں اہل ایمان کا تو یہی ارادے ہیں کہ حشر تک ڈالیں گے ہم پیدائش مولیٰ کی دھوم، مثل فارس نجد کے قلعے گراتے جائیں گے۔
خاک ہوجائیں عدوجل کر مگر ہم تو رضا۔۔۔ دم میں جب تک دم ہے ذکر ان کا سناتے جائیں گے
ایک اوراشکال ہے کہ حضورۖ کا وصال بھی بارہ ربیع الاوّل کے روز ہوا تھا لہٰذا خوشی کی جگہ افسوس کرنا چاہئے۔ عید کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس اشکال کا جواب بھی ہم بخاری شریف سے دیتے ہیں ،ہمارے آقا علیہ الصّلواة والسّلام نے ارشاد فرمایا جو عورت اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے، اسے ہرگز روا نہیں کہ وہ شوہر کے علاوہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے۔ صرف خاوند کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ منائے گی(کتاب الجنائز) ایک اور حدیث وارد ہے کہ سیدہ زینب بنت حجش رضی اللہ عنھا کا بردار مکرم فوت ہوگیا۔ انہوں نے تین دن کے بعد خوشبو منگوا کر لگائی اور فرمایا کہ مجھے خوشبو کی چنداں ضرورت نہیں مگر میں نے رسول پاکۖ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ہے جو عورت اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے اسے ہرگز روا نہیں کہ وہ شوہر کے علاوہ کسی میت پر تین روز سے زیادہ سوگ منائے۔(کتاب الجنائز) ہمارے آقا ومولیٰۖ نے تو ان کی آن ہی موت کو چکھا ہے۔ پھر آپ علیہ الصّلواة والسّلام حسب سابق زندہ جاوید ہیں۔ گویا حضور علیہ الصّلواة والسّلام کی حیات وصال پر غالب ہے تو پھر ہم سوگ کیوں منائیں؟ پھر آپ ۖ کا فرمان ہے: ترجمعہ:”میری حیات ظاہری اور میری وفات دونوں تمہارے لئے خیروبرکت کا باعث ہیں” اللہ تعالیٰ ہمیں حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور بھرپور طریقہ سے میلاد شریف منانے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here