پاکستان میں غیر اعلانیہ مارشلا کا نفاذ!!!

0
110
رمضان رانا
رمضان رانا

ماضی میں جنرلوں کے دور آمریت اور بربریت میں سیاستدانوں کو بلیک میل کرنے کیلئے کالے قوانین بنائے گئے ہیں جو کبھی ڈی پی آر کبھی ایبڈو اور کبھی آج کے دور میں نیبڈو ہے جس کا نفاذ صرف اور صرف غیر قانونی اور غیر آئینی حکمرانوں کے دور میں رہا ہے۔جس میں جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف سرفہرست ہیں۔جس سے پاکستان کے عوام کو غلام بنا رکھا گیا ہے آج پھر جنرلوں کی کوکھ سے پیدا ہونے والے پرورش پانے والے اور پروان چڑھنے والے حکمران عمران خان نیبڈو کے ساتھ ساتھ اپنے صدر علوی کی آرڈیننس فیکٹری سے لاتعداد آرڈیننسوں کا اجراء کیا ہے۔جو آئین پاکستان کے خلاف میں جو پارلیمنٹ کی موجودگی میں جاری نہیں ہوسکتا ہے۔مگر عمران خان جب اور جس وقت چاہتے ہیں ہر روز نیا آرڈیننس جاری کرکے چار ماہ کے لئے نیا قانون جاری کردیتے ہیں۔جس سے قانون ساز ادارہ بے حس ہو کر رہ گیا ہے حال ہی میں عمران خان نے پھر ایک آرڈیننس پیکا نامی جاری کیا ہے۔جو مارشلاء قانون ہے جس میں کوئی بھی شخص دوسرے شخص کے خلاف شکائت کرکے اسے بنا تحقیقات اور ثبوت چھ ماہ تک جیل میں بند کر سکتا ہے۔جس کی پانچ سال بامشقت سزا اور جرمانہ ہے یہ پیکا نامی سیاہ قانون بھی ایبڈو اور نیبڈو کی ایک قسم ہے۔کہ جس میں کمی بھی شخص کو شک کی بنا پر گرفتار کیا جاسکتا ہے۔جن کو بنا ثبوت اور تحقیق طویل مدت تک جیل میں بند رکھا جاسکتا ہے۔جس کی وجہ سے لاتعداد لوگ گرفتار ہوئے جو بے گناہ اور معصوم تھے۔جن کو جیل میں مار دیا گیا لہذا پیکا وہ کالا قانون ہے جس کے ذریعے سیاستدانوں کو بلیک میل اور صحافیوں کو ان کی تحریروں سے محروم کیا گیا ہے جس سے سیاست اور صحافت میں فقدان پیدا ہوگا جو ملک کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوگا۔عوام میں شدید بے چینیاں اور کشیدگیاں پیدا ہونگی جو کسی بھی لحاظ سے بہتر نہیں ہے کہ عام شخص کی بنا پر کسی معصوم اور بے گناہ شہری پر ایسا کالا قانون نافذ کرکے اسے باغی بنا دیا جائے۔تاہم عمران خان ایک ذہنی مریض ہے جو ایک فاشٹ شخص ہے جس کی عادات واطوار کا سلسلہ زمانے کرکٹ سے چلا آرہا ہے جن کے آمرانہ اور جابرانہ رویوں سے کئی کرکٹ کھلاڑیوں کے کیریئر تباہ وبرباد ہوئے ہیں۔جو ان سے سینئر اور زیادہ بہتر کھلاڑی تھے مگر عمران خان کی فسطائیت کے شکار رہے۔آج ہر شخص پاکستانی عوام پر مسلط کیا گیا جن کے فاشترم سے ملک میں ہر طبقہ متاثر ہوا ہے جو ان کو مسلط کرنے والوں کو کوس رہا ہے کہ آج پاکستان کو سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر جتنا نقصان پہنچا ہے کہ یہاں سے واپسی مشکل ہوچکی ہے۔عمران خان کل بھی پارلیمنٹ کا دشمن تھا جو پارلیمنٹرین کو ہمیشہ گالیاں دیا کرتا تھا۔جس کا مقصد اور مطلب عوام کے ووٹوں سے منتخب نمائندگان کے وجود کے خلاف تھا۔آج بھی پارلیمنٹ کے ووٹوں سے قانون سازی کی بجائے شخص واحد صدر علوی سے آرڈیننسوں سے کام لے رہا ہے جو آمریت اور غاصیت کا بہت بڑا ثبوت ہے جو چاہتا ہے کے پاکستان ہر شخص واحد صدارتی نظام نافذ کیا جائے جس میں پارلیمنٹ کا وجود ختم کردیا جائے جس میں صدر پارلیمنٹ کو جوابدہ نہ ہو یہی وجوہات ہیں کہ عمران خان اور اس کا اسٹیبلشمنٹ کا پروادہ ٹولہ پاکستان میں صدارتی نظام کا نفاذ لانا چاہتا ہے۔جس میں اٹھارویں ترمیم کا خاتمہ پارلیمنٹ کی محتاجی اور ون مین رول لانا چاہتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان ایک فیڈریشن ہے جس کے چار صوبے اور چند اکائیاں جس پر صدارتی نظام میں تتر بتر ہوجائیں گی جس کا تجربہ1971میں ہوچکا ہے کہ اگر ملک میں حقیقی جمہوری پارلیمانی نظام ہوتا تو بنگال پاکستان سے کبھی الگ نہ ہوتا۔اس لئے عوامی قوتوں کو ہر صورت میں موجودہ حکمرانوں کو ختم کرنا ہوگا۔جو آئین پاکستان کے دشمن اور اداروں کی توڑ پھوڑ کر رہے ہیں جس میں آج پارلیمنٹ اپاہیج اور بے اختیار ہوچکی ہے۔جس پر صدارتی آرڈیننس کا غلبہ ملے کہ آج پارلیمنٹ کی موجودگی میں کالے قوانین بنائے جارہے ہیں جس پر عدلیہ بھی خاموش ہے ماسوائے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ سامنے شیشہ دیوار بن رہے ہیں جنہوں نے فی الحال پیکا نامی کالے قانون کو رد کرتے ہوئے سماعت کا آغاز کیا ہے کہ کیا موجودہ پیکا جیسا آرڈیننس آئین پاکستان کے خلاف ہے۔کیا صدر پارلیمنٹ کی موجودگی میں آئے دن آرڈیننس جاری کرسکتا ہے۔کیا کسی شخص کی شکایت پر کسی معصوم اور بے گناہ شخص کو چھ ماہ تک جیل میں بند رکھا جاسکتا ہے۔کیا کسی شخص کو بلاجواز شک کی بنا پانچ سال سزا اور جرمانہ عائد ہوسکتا ہے۔یہ معاملہ اب ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے جس سے امید کی جاتی ہے کہ وہ تاریخی عدالتی فیصلہ کرکے موجودہ حکومت کے غیر قانونی اور غیر آئینی اعمالوں اور حربوں سے ملک اور عوام کو بچائیں گے بہرحال موجودہ حکمرانوں نے گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں پاکستان کے آئین کو معطل کر رکھا ہے جس کے مدمقابل پی سی او کی طرح عمرانی قانون نافذ ہے جو غیر اعلانیہ مارشلاء کا نفاذ ہے جس میں آئین پاکستان معطل ہوچکا ہے۔جس کی سزا آئین کے آرٹیکل چھ میں درج ہے کہ جب کوئی بھی شخص آئین پاکستان کو معطل، غیر موثر، منسوخ کریگا تو وہ غداری کا مرتکب ہوتا ہے جس کی سزا موت ہے جو آج موجودہ حکمرانوں پر لاگو ہوچکی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here