پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی ختم ، دوطرفہ تعلقات بحال ہوگئے تاہم پاکستان نے کہا ہے کہ خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں ہوگا ،قومی سلامتی اجلاس کے بعد وفاقی کابینہ نے فیصلوں کی توثیق کردی۔ذرائع کے مطابق دن بھر سفارتی چینلز سے رابطے جاری رہے ۔ وزرا خارجہ کی سطح پر بات چیت ہوئی ، سفیروں کی واپسی سمیت مسائل مذاکرات کے ذریعے سے حل کرنے پر اتفاق ہوگیا۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں تمام سروسز چیفس، وفاقی وزرا سمیت دیگر متعلقہ شخصیات شریک ہوئیں۔جہاں پر دہشتگردوں کیخلاف کارروائیاں جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان خود ہشت گردی سے متاثرہ ملک ہے ،شمالی وزیرستان سے لیکر بلوچستان تک اور اندون ملک میںبھی دہشت گرودں کے خلاف برسر پیکار ہے ۔پاکستان نے ضرب عضب ،خبیر ون ،خیبر ٹو اور خیبر تھری آپریشن کے علاوہ آپریشن رد الفساد ابھی تک جاری ہے اور افواج پاکستان کے نوجوان ہر روز شہادتیں پا رہے ہیں ،ان حالات میں پاکستان کس طرح کسی دوست ملک کے خلاف کسی بھی دہشت گرد گروپ کی مدد کر سکتا ہے ۔پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے تو پاکستان نے سفارتی کو ششیں کیں اور ابھی حال ہی میں مولانا فضل الرحمن نے دورہ کیا ہے ،جس کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان فضا کو ساز گار بنانا ہے ۔ پاکستان ایک پرامن ملک ہے اور تمام ہمسایوں کے ساتھ امن کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے کسی بھی دوست ملک کے بارے جارحانہ عزام نہیں ہیں،ایران کے خلاف بھی پاکستان کا جواب موثر اور اہداف کے حصول پر مبنی تھا۔ پاکستان اس کشیدگی کو بڑھا سکتا تھا مگر اس نے بڑے ہی صبر و تحمل سے کام لیکر حالات کو پر امن رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔اب ایران کو بھی چاہیے کہ وہ بھی آگے نہ بڑھے بلکہ پاکستان کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے اپنے وزیر خارجہ کو یہاں بھیجے اور مسائل کو باہمی افہام و تفہیم سے سلجھانے کی کوشش کی جائے ۔اس سلسلے میں روس اور چین نے بھی بڑی کوششیں کی ہیں لیکن ہمارا ازلی دشمن ہندو اس معاملے کو طول دینے کے لیے سر گرم ہے ۔ہمیں اہنے دیرینہ اور شاطر دشمن کے عزائم کو بھانپنا چاہیے اور دونوں ملکوں کے مابین جو سفارتی پیش رفت ہوئی ہے، اسے آگے بڑھانا چاہیے ۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میںپاکستان کی خودمختاری کی بلا اشتعال اور غیر قانونی خلاف ورزی کے خلاف افواج پاکستان کے پیشہ ورانہ اور متناسب ردعمل کو سراہا گیا، اس کے علاوہ اس اجلاس میںآپریشن مرگ بر سرمچار کا بھی جائزہ لیا گیا، پاکستان کا یہ آپریشن ایران کے اندر غیر حکومتی جگہوں پر مقیم پاکستانی نژاد بلوچ دہشت گردوں کے خلاف کامیابی سے انجام دیا گیا۔یہی وہ دہشت گرد ہیں جو دونوں ملکوں کے مابین حالات کو خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔پاکستان ہمسایہ ممالک کیساتھ کوئی کشیدگی نہیں چاہتا،مگر اس کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی پر سمجھوتہ بھی نہیں کر سکتا۔قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملکی سالمیت اور خود مختاری پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ پاکستان نے واضح کیا کہ وہ کبھی بھی نہیں چاہتا کہ ایران سے تعلقات خراب ہوں،مگر ایران نے غلط اقدام کیا جس کا پاکستان نے جواب دیا۔ نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی سے ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان کا ٹیلیفونک رابطہ ہوا۔ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ نے دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی اور تنائو میں کمی لانے پر اتفاق کیا۔ذرائع کے مطابق فریقین نے باہمی تنائو میں کمی لانے، اعتماد کی بحالی کے حوالے سے اقدامات کرنے پر بھی اتفاق کیا۔فریقین نے ایک دوسرے کے کور ایشوز اور درپیش چیلنجز کو مشترکہ حکمت عملی سے حل کرنے پر اتفاق کیا۔سفارتی ذرائع کے مطابق دونوں وزرائے خارجہ نے باہمی سفارتی تعلقات کی بحالی پر بھی اتفاق کر لیا۔اس سے قبل پاکستان اور ایران میں کشیدگی کے بعد مثبت پیغامات کا تبادلہ بھی ہوا تھا ۔ایرانی سفارتکار سید رسول موسوی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ اچھے ہمسایوں والے تعلقات کے لیے پرعزم ہیں، برادرانہ ممالک کے درمیان تعلقات میں تنائو لانے کی اجازت نہیں دیں گے، ایران پاکستانی حکومت اور دہشت گردوں کے درمیان تفریق کرتا ہے۔ دہشت گردی سمیت ہمارے مشترکہ چیلنجز کے لیے مربوط کارروائی کی ضرورت ہے، ایران مذاکرات سے مشترکہ چیلنجز کا حل تلاش کرنے کی کوششیں کرے گا۔ایرانی سفیر نے کہاکہ دونوں ملکوں نے ہر میدان اور مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ افغانستان اور انڈیا میں پاکستان کے علیحدگی پسند اور شدت پسند گروپ جا کر پناہ لیتے ہیں ،جس کے واضح ثبوت موجود ہیں مگر گزشتہ روز ہی کراچی سے ایسے دہشت گرد گرفتار ہوئے ہیں جو مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی پر حملے میں ملوث تھے ،ان دہشت گردوں نے اقرار کیا ہے کہ وہ الزنبیون کے نمائیدے ہیں اور اس تنظیم کا ہیڈ کواٹر ایران میں ہے ۔یہ تنظیم فرقہ وارانہ واقعات میں ملوث ہے ۔ایران کو ایسی تنظیموں کے محفوظ ٹھکانے بھی ختم کرنا ہوں گے ۔ایسی دہشت گرد تنظیمیں دونوں ملکوں کے تعلقات کو خراب کرتی ہیں ۔اس کے علاوہ بھی پاکستانی انٹیلی جنس نے ایران کو کئی دہشت گردوں کے بارے میں مکمل شواہد دے رکھے ہیں مگر ایران ابھی تک ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہے ۔پاکستان امن کی خاطر ایک قد م پیچھے ہٹا ہے اب ایران کو ایک قدم آگے بڑھ کر اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے تاکہ خطے میں امن قائم ہو سکے ۔
٭٭٭