کھلی جنگ!!!

0
21
جاوید رانا

آج ہمیں کالم کا آغاز ایک افسوسناک خبر سے کرنا پڑ رہا ہے، پاکستان میں صدا کاری، اداکاری و برطانیہ سے فن اداکاری کی تعلیم حاصل کر کے فن کے عروج پر فائز اور قومی و کمرشل اعزازات حاصل کرنیوالے طلعت حسین گزشتہ ہفتے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ریڈیو سے کم عمری میں صدا کاری کا آغاز کرنیوالے، ٹیلی ویژن اور پاکستان، بھارت و برطانیہ کی فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے طلعت حسین فن و ثقافت میں ہی نہیں علم و ادب کے حوالے سے ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔ صدا کاری کا وصف تو انہیں اپنی والدہ، ریڈیو کی سینئر براڈ کاسٹر شائستہ بیگم سے ملا تھا، نامور دانشور جدید نثری نظم کے لیجنڈ قمر جمیل کی کتاب جدید ادب کی سرحدیں، کا انتساب طلعت حسین کے نام نیز طلعت صاحب کی تخلیق کردہ کہانیاں و نظمیں جو مختلف جرائد و رسائل میں شائع ہوتی رہیں ان کے علمی و ادبی مقام کی شہادت ہیں۔ طلعت حسین کا بہت بڑا کریڈٹ قومی ترانے کے آغاز میں ان کا صوتی اعلان ہے، اب آپ اپنا قومی ترانہ سنیں گے آپ سے التماس ہے کہ اس کے احترام میں با ادب کھڑے ہو جائیں۔
طلعت حسین تو اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے، تاہم اپنی فنی و علمی اور تخلیقی صلاحیتوں کے سبب وہ دلوں اور ذہنوں میں تادیر زندہ رہیں گے۔ زندہ قوموں اور معاشروں میں علم و ادب اور فنون تعمیر و سچائی کا اہم ستون قرار دیئے جاتے ہیں لیکن جو معاشرے جبر و ستم کی بنیاد پر ارتقاء پاتے ہیں وہاں مزاحمتی و احتجاجی اظہار کو قتل سے بھی بڑا جرم قرار دینے کا سبب بنا دیا جاتا ہے۔ جس ریاست کے ادارے کسی ادیب، شاعر یا صحافی سے خوفزدہ ہو کر اسے قید میں ڈال دیں یا غائب کر دیں وہ ریاست اندر سے خوف اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ایک ناکام اور غیر مقبول ریاست کے سواء کچھ بھی نہیں کہی جا سکتی۔ وطن عزیز کے معاشرتی تناظر میں اگر جائزہ لیں تو یہ صورتحال محض موجودہ حالات میں ہی نہیں ہے بلکہ گزشتہ سات دہائیوں میں متعدد بار سامنے آئی ہے اور اس کے اثرات کبھی بھی نہ ریاست و مملکت کے حق میں آئے ہیں اور نہ ہی معاشرے و عوام کیلئے مفید ثابت ہوئے ہیں۔ ریاستی جبر کے باعث ایسے افراد کی ایک طویل فہرست ہے جنہیں حق کی آواز بلند کرنے پر قید و بند، گمشدگی، تشدد حتیٰ کہ زندگی سے محروم کر دیا گیا ہے، ایوب خان کے دور سے موجودہ سربراہ ریاست تک کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے، البتہ ایک فرق یہ آیا ہے کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ و انتظامیہ (حکومتی) کی تثلیث کا ایک کردار یعنی عدلیہ کی جانب سے اس ریاستی جبر کے اوپر سخت رد عمل ہی نہیں آیا ہے بلکہ راست اقدام کرنے کا مؤقف بھی کیا گیا ہے۔
آزاد کشمیر کے صحافی اور ریاستی جبر کیخلاف مزاحمتی شاعر کی پاداش میں گزشتہ کئی ہفتوں سے ایجنسیز کے ذریعے اُٹھائے گئے احمد فرہاد کی گمشدگی کا معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر جسٹس محسن اختر کیانی کے سامنے زیر سماعت ہے اور پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ احمد فرہاد کی بازیابی کیلئے معزز رکن عدالت نے آئین کے تحت شہری کے تحفظ کے حوالے سے سیکٹر کمانڈر ISI سمیت، سیکرٹری دفاع اور دیگر ذمہ داروں کو 29 مئی کو پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے پیشی سے مبراء ہونے کے مؤقف کو مسترد ہی نہیں کیا بلکہ اس عزم کا اعادہ کیا کہ ہر ادارہ جوابدہ ہے، انہوں نے لاپتہ افراد کے کیسز میں عدالتی حکمت عملی واضح کرتے ہوئے متعلقہ سیکٹر کمانڈر کی پیشی اور وضاحت کا بھی عندیہ دیا۔ ہم جس وقت یہ کالم لکھ رہے ہیں عدالتی سماعت میںایک روز باقی ہے سوال یہ ہے کہ متعلقہ سیکٹر کمانڈ اور سیکرٹری (سابق جنرل) عدالت میں پیش ہونگے یا حالیہ ملکی حالات کے تناظر میں ریاستی اشرافیہ کے رویوں اور اقدامات کے بموجب صورتحال سامنے آئیگی جس میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی سرد نہیں کھلی محاذ آرائی سامنے آچکی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ عدالت و اسٹیبلشمنٹ کے مابین یہ نزاعی کیفیت مقتدرہ کے عوام کے محبوب ترین قائد عمران خان اور مقبول ترین جماعت پی ٹی آئی کے خلاف غیر آئینی و غیر جمہوری اقدامات عوام کا مینڈیٹ چھین کر کٹھ پتلیوں کو اقتدار سے نوازنے، تحریک انصاف و بانی اور دیگر قائدین پر جبر و مظالم کے پہاڑ توڑے جانے کے اسباب کا نتیجہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے جاری اسٹیبلشمنٹ کے تحریک مخالف ہتھکنڈوں، خامہ فرسائیوں کی روداد سے تو آپ سب واقف ہیں۔ گزشتہ دنوں محض دو روز کے اندر تحریک انصاف کیساتھ جو غیر انسانی و غیر جمہوری حرکات کی گئی ہیں ان کی مثال کسی مہذب معاشرے میں نہیں ملتی۔ پی ٹی آئی کے ترجمان رئوف حسن پر ایجنسیز کے کارندوں کا خواجہ سرائوں کے روپ میں قاتلانہ حملہ، اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے سیکرٹریٹ کو منہدم و مسمار کیاجانا وہ بھی نصف شب میں اور حماد اظہر کے روپوشی ختم کرتے ہی ان کی گرفتاری کیلئے چھاپوں کا اقدام ہر گز اس حقیقت کا اظہار نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ بلکہ درحقیقت سربراہ فوج موجودہ غیر یقینی اور بگڑتی ہوئی صورتحال کو باہمی اشتراک و عمل سے بہتر بنانے میں سنجیدہ ہیں۔ ایک جانب باہمی مذاکرات اور ملکی صورتحال کی بہتری کی جاتی ہے تو دوسری طرف پی ٹی آئی اور خان کیخلاف ہر ظالمانہ حربہ آزمانا اس امر کو واضح کر رہا ہے کہ ریاست کا ایجنڈا ہر گز وطن عزیز کے حق میں نہیں، سونے پر سہاگہ، عمران کو مختلف مقدمات میں ماتحت عدالتوں سے دی گئی سزائوں پر اعلیٰ عدلیہ کا عدم اتفاق ریمارکس اور معزز ججز پر ایجنسیز اور ریاستی ذمہ داران کا دبائو صورتحال کو اس نہج پر لے آئے ہیں کہ ہمارا یہ کہنا غلط نہیں، حالات تباہی کی طرف جا نہیں رہے جا چکے ہیں”۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کھلی اختلافی نوعیت، حکومت کے اقدامات ان وزراء و عہدیداران کے ذریعے جو سیاسی نہیں ریاستی نامزدہ کردہ ہیں، سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کیلئے زبانی کلامی بیانات و مشورے اور سب سے بڑھ کر عوامی مینڈیٹ کی توہین ایسے عوامل ہیں جو امن و استحکام اور خوشحالی کی نشاندہی نہیں کرتے، دوسری جانب وطن کے بیٹوں کے جام شہادت نوش کرنے کا سلسلہ تھم نہیں رہا ہے۔ کیا یہ کسی کھلی جنگ کی تمہید ہے یا جمہوریت لپیٹنے کے بعد ایک اور مارشل لاء کی نوید، ہر دو صورتوں میں ملک اور قوم کا نقصان ہی ہے۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here