شکاگو (وسیم رحمان سے) بھارت کی حکمران جماعتوں نے پاکستان کے خلاف بحران کیسے گھڑ کر اپنے داخلی سیاسی انتشار سے توجہ ہٹائی”کبھی کبھی جس دشمن کی طرف تم سرحد پار اشارہ کرتے ہو، وہ صرف ایک آئینہ ہوتا ہے، جو تمہیں تمہارے اپنے اندر چھپے دشمن سے غافل کرتا ہے۔یہ لرزہ خیز سچ اب بھارت کے سیاسی ایوانوں میں گونج رہا ہے۔ جو کچھ بھارت اور پاکستان کے درمیان تلواروں کی جھنکار کے ایک اور واقعے کے طور پر شروع ہوا تھا، وہ اب ایک زیادہ خطرناک موڑ اختیار کر چکا ہے—ایسا موڑ جو کشمیر جیسے علاقائی تنازع سے کم اور داخلی خوف، نظریاتی تقسیم، اور حکومتی گھبراہٹ سے زیادہ جْڑا ہوا ہے۔حال ہی میں بھارتی میڈیا اور قوم پرست حلقوں نے جس جنگی جنون کو ہوا دی، وہ کبھی بھی پاکستان کے خلاف سچی دشمنی نہیں تھی۔ دراصل، یہ سب بھارت کے اپنے بارے میں تھا—ایک ایسی حکومت جو اپنے عوام کی ممکنہ بغاوت سے لرزہ بر اندام ہے، بالکل اسی طرح جیسے بنگلہ دیش میں عوام نے شیخ حسینہ کے خلاف احتجاج کیا۔اس انکشاف کے مرکز میں دلیپ دیودھر نامی سینئر آر ایس ایس محقق موجود ہیں، جو سنگھ پریوار کے نظریاتی نظام کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔ اکنامک ٹائمز کی ایک حیرت انگیز رپورٹ میں دیودھر نے تسلیم کیا کہ بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی نے آر ایس ایس اور بی جے پی کو ہلا کر رکھ دیا۔اگست 2024 میں، بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت عوامی احتجاج کی لہروں کے نتیجے میں گر گئی۔ بھارت میں اس واقعے کو ایک علاقائی حادثہ نہیں بلکہ ایک پیش خیمہ سمجھا گیا۔ حسینہ کو عوامی غصے نے مجبور کیا کہ وہ ملک چھوڑ کر پناہ لے۔ یہی واقعہ بھارت کی حکومتی صفوں میں کھلبلی کا باعث بنا۔دیودھر کے مطابق آر ایس ایس کے سینئر اراکین کو خدشہ تھا کہ اگلا نمبر بھارت کا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا: “جو کچھ بنگلہ دیش میں ہوا، وہ بھارت میں بھی ہو سکتا ہے۔” بڑھتی بے روزگاری، مہنگائی، ذات پات پر مبنی ناانصافی، مذہبی شدت پسندی، اور حکومتی زیادتیوں کی بنا پر پہلے ہی غم و غصہ پھیل رہا تھا۔ سنگھ کے اندرونی حلقے چپکے چپکے سوچنے لگے: “اگر مودی کو بھی حسینہ کی طرح ملک چھوڑنا پڑے تو؟”یہ صرف قیاس آرائیاں نہ تھیں۔ دیودھر کے مطابق، آر ایس ایس نے باضابطہ طور پر بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔ یہی لمحہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان جمی برف پگھلانے والا ثابت ہوا، جن کا رشتہ ایک دہائی سے ٹھنڈا پڑ چکا تھا پھر آئے 2024 کے لوک سبھا انتخابات، جہاں بی جے پی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ اس کے بعد حسینہ کا زوال—ان دونوں نے بی جے پی اور آر ایس ایس کو پھر سے قریب کر دیا۔ اور اب پاکستان ایک بیرونی دشمن نہیں رہا تھا، بلکہ ایک سیاسی ہتھیار بن چکا تھا۔اس نازک صورتحال میں، پاکستان مخالف بیانیے کی بحالی کوئی اتفاق نہیں تھا۔ نام نہاد کشمیر واقعہ—جسے بھارتی میڈیا نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا—دوہرا مقصد پورا کرتا تھا: عوامی مخالفت کو دبانا اور قوم پرستی کے جذبے کو ابھارنا۔مودی کی بی جے پی نے پرانی آزمودہ چال دہرائی: شدت پسند قوم پرستی۔ ٹی وی چینلز پر جنگ کے نعرے، سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف ہسٹیریا، اور حکومتی اداروں کی طرف سے مصنوعی خطرے کا واویلا—یہ سب ایک منظم بیانیے کا حصہ تھا لیکن حقیقت یہ تھی: بھارت کی طرف سے نہ کوئی جنگ ہونے والی تھی، نہ اس کا ارادہ تھا۔ یہ سب ایک تماشا تھا۔ وزیر اعظم کی فوجی کمانڈ سے ملاقاتیں، پریس میں خبریں لیک کرنا، اور پاکستان پر الزام تراشی—سب کچھ صرف ڈرامے کا حصہ تھا۔جنگ کا مقصد کبھی بھی جنگ نہیں تھا۔ مقصد تھا تصویر کا کنٹرول۔ زیادہ سے زیادہ ایک نام نہاد “سرجیکل اسٹرائیک”—جس کا ہدف خالی ہو، مگر ٹی وی پر تصویر بھاری۔یہ سب مصنوعی ہسٹیریا درحقیقت ایک اور خوف پیدا کرنے کے لیے تھا: پاکستان، چین، اور بنگلہ دیش کے درمیان تین طرفہ اتحاد کا وہم۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کی نظر میں سب سے بڑا خطرہ بیرونی حملہ نہیں تھا، بلکہ جنرل عاصم منیر کی قیادت تھی۔عاصم منیر صرف ایک فوجی نہیں—وہ حافظ قرآن ہیں، دیندار شخصیت، اور اسلامی سیاسی سوچ سے ہم آہنگ۔ ان کی مبینہ قربت جماعت اسلامی سے، جس کی بنگلہ دیش اور پاکستان میں تاریخی موجودگی رہی ہے، بھارتی سلامتی اداروں کے لیے ایک پریشان کن خیال بن گئی۔ یہ افواہیں گردش میں آئیں کہ منیر جماعت اسلامی کو ہتھیار فراہم کر سکتے ہیں، تاکہ بنگلہ دیش میں بغاوت اٹھے اور بھارت کا شمال مشرقی علاقہ تنہا ہو جائے۔مگر حقیقت اس کے برعکس تھی۔ عاصم منیر نے محمد علی جناح کے وڑن کو دہرایا—امن، مذہبی آزادی، اور خودارادیت کے اصول، جن کا جنگ یا توسیع پسندی سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا موقف واضح تھا: پاکستان جنگ نہیں چاہتا، مگر جبر برداشت نہیں کرے گا۔ ان کے الفاظ خطرہ نہیں، بلکہ خودمختاری کا اعلان تھے لیکن یہ نکتہ شور میں دب گیا۔ بی جے پیـآر ایس ایس کے پروپیگنڈے میں، منیر کا مذہبی پس منظر اور فکری وضاحت ایک مصنوعی خطرے میں تبدیل ہو گئے۔ جناح کا تصور دہرانے والا شخص ایک شدت پسند دشمن بنا کر پیش کیا گیا۔اسی خیالی خاکے نے بھارت کو یہ موقع دیا کہ وہ تنازع کو محض سرحدی جھگڑا نہیں، بلکہ تہذیبی جنگ قرار دے۔ اور ایک بار جب یہ فریب جم گیا، ہسٹیریا کا نظام خود بخود چلنے لگا۔یہ واقعہ فریب کی انتہا ہے۔ نریندر مودی اور سنگھ کے ماتحت بھارت نے ایک عالمی سطح کا جعلی بحران گھڑا۔ ایک ایٹمی طاقت نے جنگ کے سراب کو استعمال کیا۔اس نظام کے اندر جس نے ایٹمی جنگ کا خطرہ مول لے لیا صرف اس لیے کہ حکومت بچ جائے۔یہ دفاعی حکمت عملی نہیں تھی۔ یہ ایک سیاسی تماشا تھا جس کے عالمی اثرات ہو سکتے تھے۔تاریخ اسے ایک قریب الوقوع جنگ کے طور پر یاد نہیں رکھے گی۔ یہ ایک جمہوری بحران، عقل کے خلاف سازش، اور وہ لمحہ تھا جب لاکھوں انسانوں کو سیاسی بقا کی قربان گاہ پر چڑھایا جا رہا تھا۔