ٹرمپ کیخلاف ”نوکنگز”احتجاج، کروڑوں مظاہرین سڑکوں پر

0
54

واشنگٹن (پاکستان نیوز)امریکہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کروڑوں مظاہرین حکومت مخالف مظاہروں میں سڑکوں پر نکل آئے ، ”نوکنگز”احتجاج کے دوران 2700سے زائد ریاستوں میں کروڑوں مظاہرین نے ٹرمپ حکومت کو انتقامی کارروائیاں فوری طور پر بند کر کے متنازع فیصلے واپس لینے کا مطالبہ کر دیا،ہیوسٹن ، ڈینور، نیویارک، واشنگٹن ،بوسٹن، فلاڈیلفیا، اٹلانٹا، ڈینور، شکاگو اور سیاٹل ،لاس اینجلس، سین ڈیاگومیں مظاہرین کا اژدھام نکل آیا، نیویارک کے ٹائمز سکوائر پر 20 ہزار سے زائد مظاہرین نے نظام زندگی کو مفلوج کر دیا ، احتجاج میں 300 سے زائد تنظیمیں شامل ہیں ، سینیٹر چک شومر، سینیٹر برنی سینڈرز،رکن کانگریس الیگزینڈریا اوکاسیو نے بھی احتجاج کی حمایت کر دی۔مختلف طبقات پر مشتمل ان مظاہروں میں بچوں کے ساتھ والدین، ریٹائرڈ افراد اور پالتو جانوروں کو ساتھ لیے لوگ موجود تھے۔ ان مظاہروں میں غیر قانونی سرگرمیوں کی بہت کم یا کوئی اطلاع نہیں ملی۔انڈیویزیبل نامی ترقی پسند تنظیم کی شریک بانی لیا گرین برگ نے کہا کہ امریکی ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ ہم کہتے ہیں ‘ہمارے ہاں بادشاہ نہیں’ اور پرامن احتجاج کا حق استعمال کرتے ہیں۔نیو یارک سٹی کے ٹائمز سکوائر میں مظاہرین نے جگہ بھر دی،بوسٹن، فلاڈیلفیا، اٹلانٹا، ڈینور، شکاگو اور سیاٹل میں بھی ہزاروں بلکہ کئی جگہوں پر لاکھوں لوگ جمع ہوئے۔مغربی ساحل پر لاس اینجلس کے اطراف ایک درجن سے زائد ریلیاں نکالی گئیں جن میں مرکزی اجتماع شہر کے مرکز میں تھا۔سیاٹل میں مظاہرین نے ایک میل سے زائد طویل جلوس نکالا جو شہر کے وسط سے ہوتا ہوا سپیس نیڈل کے اردگرد سیٹل سینٹر پلازہ تک پہنچا۔پولیس کے مطابق سان ڈیاگو میں 25 ہزار سے زیادہ افراد نے پرامن احتجاج کیا۔یہ مظاہرے بہت سے امریکیوں، خصوصاً نظریاتی طور پر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں، کی بڑھتی ہوئی بے چینی کا مظہر تھے۔ان کی تشویش کی وجوہات میں ٹرمپ کے مبینہ سیاسی مخالفین کے خلاف فوجداری کارروائیاں، امیگریشن پر سخت فوجی طرز کی کریک ڈاؤن مہم، اور امریکی شہروں میں نیشنل گارڈ کے دستے بھیجنا شامل ہیں۔یہ ایسا اقدام ہے جسے ٹرمپ نے جرائم سے نمٹنے اور امیگریشن ایجنٹس کے تحفظ کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔اپنی حکومت کی پالیسیوں کو تیزی سے نافذ کرنے کی کوشش میں ٹرمپ نے انتظامیہ کی صفوں میں غیر تجربہ کار وفاداروں کو تعینات کیا اور خبر رساں اداروں، قانونی فرموں اور یونیورسٹیوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔مظاہرے کرنے والوں نے واشنگٹن کی ایک سڑک بھر دی اور امریکی کانگریس کی عمارت کی طرف مارچ کیا۔لوگ نعرے لگا رہے تھے اور انہوں نے کتبے، امریکی پرچم اور غبارے اٹھائے رکھے تھے۔ اس موقعے پر میلے کا سماں دکھائی دیا،السٹن ایلیٹ، جنہوں نے مجسمہ آزادی کا سرپوش پہن رکھا تھا اور ایک پلے کارڈ پر ‘ہم آمر نہیں چاہتے’ لکھا تھا، کہا کہ ہم جمہوریت کی حمایت دکھانا چاہتے ہیں اور اس بات کے لیے کھڑے ہیں جو درست ہے۔ میں اختیارات کے ناجائز استعمال کے خلاف ہوں۔ہیوسٹن کے مرکزی حصے میں امریکی بحریہ کے سابق اہلکار ڈینیئل ابوئٹے گیمیز سٹی ہال پر اس ہجوم میں شامل ہو گئے جس کے بارے میں حکام نے کہا کہ اس کی تعداد تقریباً پانچ ہزار تھی۔70 سالہ کیون برائس ایک فوجی سابق اہلکار نے، جو ہزاروں مظاہرین کے ساتھ پورٹ لینڈ، اوریگون کے دریائی کنارے کی طرف بڑھ رہے تھے، سیاہ سویٹ شرٹ پہن رکھی تھی جس پر نعرہ درج تھا ‘1776 سے کوئی بادشاہ نہیں۔’ وہ اعلان آزادی کے سال کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ٹرمپ نے ہفتے کے مظاہروں پر بہت کم بات کی لیکن فاکس بزنس کو جمعے کو نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وہ مجھے بادشاہ کہہ رہے ہیں، میں بادشاہ نہیں ہوں،جب سے ٹرمپ دوبارہ منتخب ہوئے ہیں ڈیموکریٹک پارٹی اندرونی تقسیم سے نمٹ رہی ہے تاہم پارٹی کے مرکزی رہنما، جیسے سینیٹ کے اقلیتی لیڈر چک شومر اور پیش قدمی کی علامت امریکی نمائندہ الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز، دونوں نے ‘نو کنگز’ تحریک کی حمایت کی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here