اسلام آباد:
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے حال ہی میں اپنی سالانہ رپورٹ برائے مالی سال 2018-19 میں حکومت سے فوری اور ترجیحی بنیادوں پر مربوط صنعتی پالیسی اپنانے کی سفارش کی۔اسی طرح پاکستان بزنس کونسل نے روزگار کی فراہمی، ویلیو ایڈڈ برآمدات اور درآمدی متبادلات کے فروغ کے لیے نئی صنعتی پالیسی لانے پر زور دیا۔ ان مطالبات کے پیش نظر یوں لگتا ہے کہ حکومت نے 10 سالہ صنعتی پالیسی متعارف کرانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ حکومت نے وزارت صنعت اور وزارت تجارت کو 30 نومبر تک ڈرافٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ گذشتہ صدی میں ممالک نئی صنعتی پالیسیاں تشکیل دیتے رہتے تھے مگر اب یہ رجحان مفقود ہوگیا ہے کیوں کہ طویل بحث و مباحثے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرلیا گیا ہے کہ مارکیٹ کی ناکامی حکومت کی ناکامی سے کم تباہ کُن ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صنعتی پالیسیاں تشکیل دینے کی پریکٹس عالمی سطح پر متروک ہوچکی ہے۔ اگر حکومت پاکستان نئی صنعتی پالیسی تشکیل دینا چاہتی ہے تو ضروری ہے کہ پچھلی ناکام پالیسیاں نہ دہرائی جائیں۔ اس حوالے سے سوچ میں بنیادی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ یہ بہتر ہوگا کہ حکومت ان شعبوں اور پہلووں پر غور کرے جہاں ہم زیادہ کامیاب ممالک سے مماثلت نہیں رکھتے اور اس کے مطابق اپنی سمت تبدیل کرے۔ یہ ضروری ہے کہ نئی پالیسی ان سوالوں کا جواب دیتی ہو۔ملکی برآمدات میں انجنیئرنگ مصنوعات کی برآمدات کا حصہ محض 0.02 فیصد کیوں ہے جبکہ عالمی سطح پر یہ شرح 50 فیصد ہے۔ بھارت کی برآمدات میں انجنیئرنگ مصنوعات کا حصہ 25 فیصد ہے۔
پاکستان اس گلوبل ویلیوچین پروڈکشن میں شامل کیوں نہیں ہے جس کا عالمی برآمدات میں بڑا حصہ ہے۔ حکومت اپنی پالیسیوں کا رخ کم ویلیو سے ویلیو ایڈڈ مصنوعات جیسی مشینری اور آٹوپارٹس کی حوصلہ افزائی کی جانب کیسے موڑ سکتی ہے؟ ہم ویتنام کی ہمسری کیسے کرسکتے ہیں؟ 1995 میں ویتنام کی برآمدات پاکستانی برآمدات کے مساوی یعنی 5 ارب ڈالر تھیں۔ مگر اب ویتنام کی ایک ماہ کی برآمدات پاکستانی کی سالانہ برآمدات سے زیادہ ہیں۔ اگر نئی صنعتی پالیسی ان تمام اور دیگر سوالوں کے جواب دے سکے تو پھر اس کی تشکیل واقعی مفید ہو گی۔