اسلام آباد:
سوئٹزر لینڈ نے پاکستان کو پانچ سال پرانی ٹیکس معلومات فراہم کرنے کی درخواست مسترد کر دی ہے جس سے بڑی مالیاتی ریکوری کے امکانات محدود ہو گئے ہیںجبکہ پاکستان کو اس حوالے سے پہلی معلومات ستمبر 2021میں موصول ہونگی۔
ایف بی آر کے حکام کے مطابق سوئٹزرلینڈ پاکستانیوں کے بینک اکاؤنٹس کی صرف سال 2020کی تفصیلات فراہم کریگا جس سے ٹیکس حکام کے لیے بڑے پیمانے پر ریکوری کرنا ممکن نہیں رہے گا کیونکہ اگست2014میں پاکستان اور سوئٹزر لینڈ نے دہرے ٹیکسوں سے بچاؤ کے نظرثانی معاہدے کا آغاز کیا تاہم اس کے ساتھ ہی اس عمل کو روک دیا گیا جس کے بعد پاکستانیوں نے سوئس بینکوں سے اپنی بڑی رقوم کو کہیں اور منتقل کردیا۔
2018 میں نظرثانی معاہدے کی توثیق کی دستاویزات کے تبادلے کے موقع پر پاکستان نے سوئس ٹیکس حکام سے درخواست کی تھی انہیں اگست 2014سے معلومات فراہم کی جائیں۔
چونکہ پاکستان کے مطالبے کے لئے کوئی قانونی جواز نہیں تھا اس لئے سوئس حکام نے آگاہ کیا کہ وہ جنوری 2019سے قبل کی معلومات فراہم نہیں کر سکتے تاہم سوئٹزر لینڈ نے پاکستان کو ترجیحی بنیادوں پر معلومات تک رسائی دینے پر اتفاق کیا۔ گزشتہ ہفتے سوئس پارلیمنٹ نے پاکستان سمیت اٹھارہ اضافی ممالک کے ساتھ بینک معلومات کے خودکار تبادلے کی منظوری دی جس کے تحت سوئٹزر لینڈ ان ممالک کے شہریوں کے بینک اکاؤنٹس کی صرف جنوری سے دسمبر 2020 تک کی معلومات فراہم کریگا۔
پاکستان اور سوئٹزر لینڈ میںطے پانے والے نظرثانی معاہدے کا اطلاق یکم جنوری 2019سے ہوا تھا جبکہ اس پر دستخط مارچ 2017 میں ہوئے تھے، اس معاہدے نے دونوں ممالک کے درمیان 2008کے ٹیکس معاہدے کی جگہ لی ہے۔
نظرثانی معاہدے سے پاکستان کو ماضی کی ٹرانزیکشنز کے حوالے سے کوئی فائدہ ملنے کا امکان بہت کم ہے تاہم اس سے یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ سوئٹزرلینڈ مستقبل میں پاکستانیوں کیلئے دولت چھپانے کی محفوظ جنت نہیں رہے گا۔
اگست 2014 میں پاکستان نے سوئٹزر لینڈ کے ساتھ نظرثانی معاہدے کا آغاز کیا تھاجس کے تحت پاکستان کو 2015کے اوائل میں پاکستانیوں کے200 ارب ڈالر کے بارے میں معلومات ملنا تھیں2018میں سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کی رقوم میں 34فیصد یا 73.8کروڑ ڈالر سے زائد کی کمی واقع ہوئی۔ 73.8کروڑ ڈالر کے بارے میں معلومات کی راہ میں بڑی رکاوٹ یواے ای اور ملائشیا جیسے ممالک کی سرمایہ کاری کی اسکیمیں ہیں۔
پاکستان کو آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ (او ای سی ڈی)کے ساتھ معاہدے کے تحت ملنے والی آف شور ٹیکس معلومات سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کیلئے بھی انتظامی، مالیاتی اور تکنیکی چیلنجز درپیش ہیں۔