اسلام آباد:
پرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری کا مقدمہ6سال سے زائد چلا۔
مسلم لیگ نے اپنی حکومت کے ابتدائی مہینوں میں ہی ان کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ دائر کر دیا تھا، سابق وزیراعظم نوازشریف نے 26 جون 2013 کو انکوائری کیلیے وزارت داخلہ کو خط لکھا جس پر وزارت داخلہ نے ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جس نے16نومبر2013 کو رپورٹ جمع کرائی، لا ڈویژن کی مشاورت کے بعد13 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کے خلاف شکایت درج کرائی گئی جس میں ان کے خلاف سب سے سنگین جرم متعدد مواقع پر آئین معطل کرنا بتایا گیا۔
خصوصی عدالت نے 24 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کو بطور ملزم طلب کیا جبکہ31 مارچ 2014 کو ان پر آئین توڑنے، ججز کو نظربند کرنے، آئین میں غیر قانونی ترمیم کرنے، بطور آرمی چیف آئین معطل کرنے اور غیر آئینی پی سی او جاری کرنے کی فرد جرم عائد کی گئی۔
پرویزمشرف نے صحت جرم سے انکار کیا تو ٹرائل کا باقاعدہ آغاز کیا گیا،18 ستمبر 2014 کو پراسیکیوشن نے پرویز مشرف کے خلاف شہادتیں مکمل کیں جس کے بعد پرویز مشرف کو بطور ملزم بیان ریکارڈ کرانے کا کہا گیا، انھیں مسلسل غیرحاضری پر پہلے مفرور اور پھر اشتہاری قرار دیا گیا۔
پرویز مشرف صرف ایک دفعہ عدالت میں پیش ہوئے اور پھر بیماری پر سی ایم ایچ راولپنڈی منتقل ہوئے، 2016 میں ای سی ایل سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے، خصوصی عدالت کی متعدد دفعہ تشکیل نوکی گئی اور ججز بدلتے رہے، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہرعالم میاں خیل اور جسٹس طاہرہ صفدر سمیت 7 ججز نے مقدمہ سنا۔