او آئی سی کی بھارتی مسلمانوں کی حالت زار پر تشویش!!!

0
109

ستاون مسلمان ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کے لئے قائم او آئی سی نے بھارت میںمسلمانوں کے خلاف اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم نے بھارت سے کہا ہے کہ بھارتی حکومت مسلمانوں اور ان کے مقدس مقامات کی حفاظت یقینی بنائے۔ تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کے چارٹر پر کاربند رہتے ہوئے مسلمانوں کا تحفظ کرے ورنہ خطے کے امن کو سنگین خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف متنازع شہریت بل پر مظاہروں کے دوران مزید 5افراد ہلاک ہونے سے اب تک ہلاک ہونیوالوں کی تعداد 26ہو گئی ہے۔ اتر پردیش میں عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی ہے اور مظاہرین کی جائیدادیں ضبط کی جا رہی ہیں۔ بھارت میں اٹھارہ کروڑ مسلمانوں کی جان‘ مال اور آبرو حکومتی اقدامات کے باعث خطرے میں ہے۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں انتہا پسندوں کی حکومت والی ریاست اتر پردیش میں ہوئیں جہاں 16افراد گولیاں لگنے سے مر چکے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارتی پولیس مظاہرین پر تشدد اور گولیاں چلانے کے الزامات تسلیم نہیں کر رہی مگر بہت سی تصاویر اور ویڈیو میں پولیس اہلکاروں کو گولیاں چلاتے اور پستول لہراتے دیکھا جا سکتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم اس صورت حال میں مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت میں کہیں حراستی مرکز نہیں جبکہ کانگرسی رہنما پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر آسام اور ملک کے دوسرے علاقوں میں حراستی مراکز کے متعلق آگاہ کر رہے ہیں۔ بھارت کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے خاص طور پر خواتین کو نشانہ بنایا ہے۔ پولیس گھروں میں گھس رہی ہے‘ کئی جگہ خواتین نے بدسلوکی کی شکایت کی ہے جسے اعلیٰ افسران کی طرف سے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پہلے ہی بگڑی ہوئی ہے۔140روز گزرنے کے بعد بھی کشمیریوں پر عاید پابندیاں ختم نہیں کی جا رہیں۔ اسی نوے لاکھ کی آبادی کے روزگار کا ذریعہ سیب کے باغات تباہ ہو چکے ہیں۔ وادی کے حالات کو دیکھ کر کوئی سیاح اس کا رخ نہیں کر رہا۔ اس پر مستزاد یہ کہ بھارت نے نو لاکھ فوج کی مدد سے ہر گھر کو جیل بنا دیا ہے۔ او آئی سی کی غرض و غایت میں نیٹو کی طرح دفاعی تنظیم پیش نظر نہیں تھی تاہم قیام کے وقت صورت حال یہ تھی کہ عرب ممالک تیل کی دولت سے نئے نئے امیر ہوئے تھے۔ تمام عرب ممالک میں اسرائیل کے حوالے سے شدید غصہ تھا۔ دولت مند عرب ممالک چاہتے تھے کہ مسلمان تعلیمی‘ سیاسی اور معاشی طور پر پسماندہ نہ رہیں۔ اس مقصد کے لئے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اور دوسرے ادارے کئی ممالک میں قائم کئے گئے۔ مسلمان ممالک کو امہ کے نام پر متحد کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہر سال او آئی سی کا سربراہی اجلاس‘ وزرائے خارجہ اجلاس اور ذیلی کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے ہوتے رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تنظیم کی طاقت بڑھنے کی بجائے کم ہوتی چلی گئی۔ پہلے پہل تنظیم کی جانب سے فلسطین اور کشمیر کے تنازعات سے متعلق بیان جاری ہوتا تو اسرائیل اور بھارت اسے سنجیدگی سے دیکھتے۔ مدت ہوئی یہ رعب اور وقار رخصت ہوا اور اب تنظیم جب کبھی ایسا بیان جاری کرتی ہے تو اسے پر کاہ برابر اہمیت نہیں ملتی۔ یہ تنظیم کل عالمی آبادی کے 22فیصد لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ دنیا کی مجموعی جی ڈی پی کا 2فیصد او آئی سی کے رکن ممالک پیدا کرتے ہیں۔ ان ممالک کی تجارت عالمی تجارت کا 1.3فیصد ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ او آئی سی ممالک کی 25فیصد آبادی پینے کے صاف پانی اور علاج کی سہولتوں سے محروم ہے۔ آدھی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ کوئی ایک ملک بھی انسانی ترقی کے انڈکس کی بالائی فہرست میں شامل نہیں نہ ہی گلوبل اکنامک انڈیکٹرز میں ان ممالک کا کوئی قابل ذکر مقام ہے۔1970ءمیں اسلامی ممالک نے امہ کی بہتری کے لئے جو کاوشیں شروع کیں اور 1972ءمیں پہلی سربراہ کانفرنس میں دنیا کے سامنے رکھیں 48برس گزرنے کے باوجود ان کوششوں کے سماجی ‘ معاشی اور سائنسی اثرات مسلم معاشروں پر مثبت صورت ظاہر نہیں ہو سکے۔ یہ صورت حال اس وقت اور بھی تشویشناک معلوم ہونے لگتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں موجود توانائی کا 70فیصد مسلم ممالک کے پاس ہے۔ او آئی سی کا باقاعدہ سربراہی اجلاس 2003ءمیں جب ملائشیا میں ہوا تو او آئی سی کی کارکردگی پر مہاتیر محمد سمیت بعض رہنماﺅں نے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ 1971ء میں سقوط مشرقی پاکستان1982ءمیں لبنان میں اسرائیلی افواج کا داخلہ‘ عرا ق ایران جنگ ‘ افغانستان میں سوویت مداخلت‘ عراق پر امریکی قبضہ‘ افغانستان کے خلاف امریکہ کی جنگ‘ کشمیر کی آئینی حیثیت یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کے منصوبے پر او آئی سی کا کردار غیر موثر اور مجہول سا رہا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ رکن ممالک جس معاملے پر مشترکہ اعلامیہ یا موقف اختیار کرتے ہیں انفرادی طور پر اس موقف کے لئے کوئی سفارتی یا سیاسی سرگرمی انجام نہیں دیتے۔ اس دوعملی نے امہ کے دشمنوں کو یہ باور کرا دیا ہے کہ دنیا میں مسلمان جہاں بھی ہوں انہیں ختم کر دیا جائے تو کہیں سے ردعمل نہیں آئے گا۔ترکی‘ملائیشیا اور پاکستان اگر امہ کو مضبوط بنانے کی بات کرتے ہیں تو ان کا راستہ روکا جاتا ہے۔ ان حالات میں او آئی سی کو اپنا اعتبار اور ساکھ بحال کرنے کے لئے بیان بازی سے بڑھ کر کردار ادا کرنے پر توجہ دینا ہو گی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here