کراچی:
آج کے جدید معاشی دور میں کوئی بھی شخص کریڈٹ کارڈ کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا، لوگوں کو ایسے کارڈ کی ضرورت پڑتی رہتی ہے خاص طور پر بیرون ملک سفر کے دوران اور ہوٹلوں میں قیام کی صورت میں انھیں کریڈٹ کارڈ درکار ہوتے ہیں۔
کریڈٹ کارڈ صارفین کو ایک ممکنہ حد تک مالی آزادی فراہم کرتے ہیں کہ اگر ان کی تنخواہ ختم ہوجائے اور مہینہ ابھی باقی ہو تو وہ اپنی مالی ضروریات ان کریڈٹ کارڈز کے ذریعے پوری کرسکتے ہیں۔ اس ساری صورت حال میں کوئی یہ بات یقین کرے گا کہ پاکستان میں ایسے بینک بھی ہیں جو کریڈٹ کارڈ فراہم نہیں کرتے۔ ان میں پانچ اسلامی بینک اور کچھ روایتی بینک جو شرعی ضوابط کے تحت کام کررہے ہیں، یہ کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم نہیں کرتے۔
یہ بینک نہ ہی پرسنل لون کی سہولت فراہم کرتے ہیں کیونکہ پرسنل لون یا کریڈٹ کارڈ کے پیچھے دراصل کوئی اور شئے موجود نہیں، یعنی اسلامی بینکوں کا موقف ہے کہ کوئی بھی بینکنگ سہولت فراہم کرنے کے لیے اس کے پیچھے بھی کوئی ٹھوس پراڈکٹ ہونی چاہئے جس کی بنیاد پر یہ سہولیات فراہم کی جاسکیں۔
یہ بینک قرض پر رقم فراہم نہیں کرتے کیونکہ یہ سود کا کاروبار نہیں کرتے تاہم صارفین کو کسی بھی شئے یا پراڈکٹ کی ضرورت کی صورت میں اسے صارفین یا کاروبار کے ساتھ مل کر خرید لیتے ہیں یعنی اس میں پارٹنر بن جاتے ہیں اور پھر صارف کو وہ شئے یا پراڈکٹ استعمال کرنے دیتے ہیں اور اس طرح اس پراڈکٹ کے استعمال کی صورت میں صارف یا کاروبار کو ہونے والے منافع میں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں جبکہ روایتی بینک کوئی بھی پراڈکٹ فراہم کرنے کے بعد صارف سے اس اصل رقم پر سود وصول کرتے ہیں اور دنیا بھر میں روایتی بینکنگ کا یہی طریقہ کار ہے۔
کسی وجہ سے اگر وہ کاروبار یا صارف اس قابل نہ رہے کہ بینک کو منافع لوٹاسکے تو اس صورت میں بینک وہ پراڈکٹ خود رکھ لیتے ہیں۔ اس حوالے سے ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت میں بینک الفلاح اسلامک گروپ کے سربراہ ڈاکٹر محمد عمران کا کہلنا تھا کہ اسلامی بینک کس طرح اپنی رقم واپس وصول کرسکیں گے اگر صارف کو دی گئی پراڈکٹ کے ساتھ کوئی دیگر اثاثہ نتھی نہ ہو۔ مشرق وسطی میں جو اسلامی بینک کریڈٹ کارڈ فراہم کررہے ہیں وہ دراصل تورق کی بنیاد پر ہے۔
تورق میں ہوتا یہ ہے کہ خریدار ایک شیے موخر ادائیگیوں کی بنیاد پر خریدتا ہے جس کے بعد وہ اسی پراڈکٹ کو کسی تیسرے فریق کو یکمشت ادائیگی پر فروخت کردیتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کام والے تمام اسلامی بینک کریڈٹ کارڈ فراہم کرنے پر غور کررہے ہیں اور اس کے لیے وہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے رہنما اصول یعنی گائیڈ لائنز فراہم کیے جانے کا انتظار کررہے ہیں۔اسلامی بینکوں کے پاس اس وقت 600 ارب روپے اضافی پڑے ہیں تاہم ضوابط کی وجہ سے وہ اسے روایتی انداز میں پرائیویٹ سیکٹر کو فراہم نہیں کرسکتے۔
ڈاکٹر عمران کا کہنا تھا کہ بینک الفلاح کے پاس دیگر کاروبار کے اشتراک سے اثاثوں کی مالیت 80 ارب روپے ہے جبکہ ہمارے پاس 112 ارب روپے کے کھاتے موجود ہیں یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ کھاتے کے تناسب سے ہمارے قرضہ جات 75-70 فیصد بنتا ہے جو پاکستان میں کسی بھی بینک سے زیادہ ہے۔ اور ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی معیشت میں بینک الفلاح اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ آئل اینڈ گیس، ٹیکسٹائل، سیمنٹ اور لوہے کی صنعت ہمارے چار بڑے پارٹنر ہیں۔
حال ہی میں حکومت نے اسلامی بینکوں سے کہا تھا کہ وہ توانائی کے حوالے سے سکوک بانڈ کے لیے 200 ارب روپے فراہم کرنے کے لیے تیار رہیں تاکہ گردشی قرضوں کا معاملہ کسی حد تک حل کیا جاسکے۔
ڈاکٹر عمران کا کہنا تھا کہ منسٹری آف فنانس نے بینک الفلاح سے بھی رابطہ کیا تھا اور ہم بطور اسلامک فنانشل کنسورشیم کے ان سکوک کا اجرا کریں گے۔اقتصادی راہداری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ چین اپنی بہت سے گھریلو صنعتوں کر پاکستان میں قائم ہونے والے اسپیشل اکنامک زونز میں منتقل کرے گا جس سے پاکستان میں طویل المدت معاشی ترقی ہوگی۔