مجیب ایس لودھی، نیویارک
مسئلہ کشمیر برصغیر میں متوقع ایٹمی جنگ کی وجہ اختیار کر گیا ہے کیونکہ برصغیر کی دو ایٹمی طاقتیں پاکستان اور بھارت کشمیر کے علاقے کو اپنے ملک کا حصہ سمجھتی ہیں اور اسی سوچ کے ساتھ ان ممالک میں اب تک تین جنگیں لڑی جا چکی ہیں ، 14-15 اگست 1947: برطانیہ سے آزادی کے بعد دو خود مختار ریاستیں پاکستان اور بھارت وجود میں آئیں، ریاستوں اور راجواڑوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے عوام کی منشا کے مطابق کسی بھی ملک میں شامل ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی مگر اس کے ہندو راجہ نے وقت پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔اکتوبر 1947میں کشمیر میں جاری داخلی خانہ جنگی میں پاکستان سے قبائلی لشکر بھی شامل ہو گئے۔26 اکتوبر 1947میں مہاراجہ نے بھارت سے مدد چاہتے ہوئے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیئے تاہم یہ الحاق مشروط تھا کہ جیسے ہی حالات معمول پر آئیں گے کشمیر میں رائے شماری ہو گی۔27 اکتوبر 1947 میں بھارت نے اپنی فوجیں ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر میں اتار دیں تاکہ کشمیر میں ہونے والی بغاوت کو کچلا جا سکے جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ چھڑ گئی۔یکم جنوری 1948میں بھارت نے مسئلہ کشمیر پر اقوام ِ متحدہ سے مدد مانگ لی،5 فروری 1948میں اقوام متحدہ نے ایک قرار داد کے ذریعے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا تاکہ وہاں رائے شماری کرائی جا سکے۔
یکم جنوری 1949میں اقوامِ متحدہ نے جنگ بندی کراتے ہوئے دونوں ممالک کی فوجوں کو جنگ بندی لائن کا احترام کرنے کا پابند کیا اور وہاں رائے شماری کرانے کا اعلان کیا۔26 جنوری 1950میں بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کا اضافہ جس میں ریاست جموں و کشمیر کو دفاع ، خارجہ اور مواصلات کے علاوہ خود مختار حیثیت دی گئی۔اکتوبر 1950میں شیخ عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس نے جموں و کشمیر میں انتخابات کا مطالبہ کیا تاکہ ریاستی اسمبلی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرے۔30 مارچ 1951میں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے کشمیر میں انتخابی عمل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسمبلی رائے شماری کا متبادل نہیں ہے اور نہ ہی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتی ہے ساتھ ہی ایک نمائندہ مقرر کرنے اور کشمیر کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کا اعلان کیا مگر اس پر عمل در آمد نہ ہو سکا۔ستمبر 1951میں کشمیر کی اسمبلی کے انتخابات میں نیشنل کانفرنس نے تمام 75 نشستیں بلا مقابلہ حاصل کر لیں ۔
31 اکتوبر 1951 میں شیخ عبداللہ نے ریاستی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کے حق میں دلائل دیئے۔جولائی 1952میں شیخ عبدااللہ نے دہلی معاہدے پر دستخط کر دیئے جس کے تحت انڈیا کے زیرانتظام ریاست کو داخلی خودمختاری دی جائے گی،جولائی 1953 میں سائما پرشاد مکر جی نے 1952 سے کشمیر کے بھارت سے مکمل الحاق کے بارے میں جو تحریک شروع کر رکھی تھیں ،اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ عبداللہ نے کشمیر کی خود مختاری کی تجویز دے دی۔8 اگست 1953 میں شیخ عبدالاللہ کو بطور وزیراعظم فارغ کرتے ہوئے گرفتار کر کے بھارت میں قید کر دیا گیا اور ان کی جگہ بخشی غلام محمد کو وزیر اعظم بنا کر مظاہرین کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا ٹاسک سونپا گیا۔اس طرح مقبوضہ کشمیر میں پرتشدد آزادی کی تحریک آغاز ہوا جوکہ اب تک جاری ہے ، کشمیری اپنی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں ۔
پاکستان کے ہر دو ر حکومت میں کشمیر سے اظہار یکجہتی اور کشمیریوں کے حقوق کے لیے بڑھ چڑھ کر بات کی جاتی ہے اور عالمی سطح پر بھی بھرپور آواز بلند کی جاتی ہے لیکن موجودہ دورہ حکومت میںوزیراعظم سمیت حکومتی عہدیداران نے کشمیر کے مسئلے پر زبان بندی کر رکھی ہے ، خاص طور پر وزیراعظم کے دورہ امریکہ اور ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر کی حل کی یقین دہانی کے بعد پاکستانی حکومت نے مسئلہ کشمیر پر کوئی خاص ردعمل نہیں دیا ہے ، ذرائع کے مطابق عمران خان نے ٹرمپ سے ملاقات کے موقع پر کشمیر کا سودا کر لیا ہے اور ٹرمپ کی تجویز کہ کشمیر کی موجودہ سرحد کو ہی تسلیم کر کے اس مسئلے کو ختم کر دیا جائے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے ، جس طرح ٹرمپ نے مسئلہ فلسطین کا یکطرفہ حل پیش کیا ہے جس میں بیت المقدس کو ہی فلسطینی ریاست قرار دے دیا گیا ہے اور اس تجویز پر بڑی مسلم طاقتوں پاکستان اور سعودی عرب نے رضامندی ظاہر کر دی ہے ۔امریکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو غالب اکثریت میں دیکھنے کا خواہشمند ہے اور اسی مقصد کے لیے اسرائیل اپنی سرحدوں کو بڑھاتے ہوئے گریٹر اسرائیل کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا چاہتا ہے ۔
برصغیر میں چینی طاقت کو زائل کرنے کے لیے امریکہ ہمیشہ سے بھارت کو غالب اکثریت میں دیکھنے کے خواہاں رہا ہے ، ذرائع کے مطابق ٹرمپ رواں ماہ اپنے دورہ بھارت کے موقع پر مسئلہ کشمیر کا حل پیش کریں گے جوکہ ممکنہ طور پر یہی ہوگا کہ موجودہ سرحدوں کو ہی اپنا اپنا علاقہ تسلیم کر کے اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے ، امریکہ نے ہمیشہ سے بھار ت کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے جیسا کہ بھارت میں کمپیوٹر انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے سیلی کون ویلی کا قیام ، اسی طرح کوکا کولا پلانٹ کا بھارت میں لگنا ، اسی طرح ایپل اور بڑی آئی ٹی کمپنیوں کو بھارت میں کاروبار کی اجازت ملنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔پاکستان کی بات کی جائے تو ایک طرف عوام عمران حکومت کے کارناموں سے اکتائی بیٹھی ہے ، لوگ ملازمتوں ، کاروبار سے محروم ہو کر رہ گئے ہیں ، غریب ایک وقت کی روٹی کو ترس گیا ہے تو دوسری طرف مڈل کلاس طبقہ بھی فاقوں تک پہنچ چکا ہے ، انتخابات میں عمران خان کو سپورٹ کرنےوالے اب خود ہی اس کی مخالفت پر اتر آئے ہیں ۔
کشمیر پر سودے بازی کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد حکومت کی واحد سپورٹر پاک فوج بھی اس کی مخالفت میں آنکھیں دکھانے لگ گئی ہے کیونکہ پاک فوج کبھی بھی کشمیر پر سودے بازی کو برداشت نہیں کر سکتی ہے اور اس سلسلے میں عمران خان نے پاک فوج کو اعتماد میں نہیں لیا ہے ، یہ بھی اطلاعات ہیں کہ صدر ٹرمپ کے دورہ بھارت کے دوران مسئلہ کشمیر پر تجویز سامنے آنے سے قبل ہی پاک فوج کی جانب سے عمران حکومت ختم کر دیا جائے ،مسئلہ کشمیر کا یکطرفہ حل کشمیریوں کے ساتھ ساتھ پاک فوج اور پاکستانی عوام کو بھی نامنظور ہوگا لیکن حکومت کی با ت کی جائے تو وہ بھارت سے اس مسئلے پر تکرار اور جنگوں سے اکتا چکی ہے اور اب آگے بڑھنے کے لیے اس مسئلے سے جان چھڑانا چاہتی ہے لیکن پاک فوج کی موجودگی میں مسئلہ کشمیر کا یک طرفہ حل کسی صورت بھی قبول نہیں کیا جائے گا، مسئلہ کشمیر کا کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل ہی خطے میں مکمل کشیدگی ختم کرنے کا واحد راستہ ہے ۔