کامل احمر
چین میں کورونا وائرس کے پھیلنے کی اطلاع کےساتھ ہی چین کی حکومت اور آرمی نے خود کو اس نئی موذی بیماری کےخلاف لڑنے کیلئے تیار کر لیا، مزے کی اور حیرانی کی بات یہ تھی کہ چینی حکومت کا کوئی وزیر یا صدر ٹی وی پر نہیں دیکھا گیا ،سوائے ڈاکٹروں کے جو میڈیا کو جواب دے رہے تھے، کوئی پریس کانفرنس، کوئی ٹاک شو، چائنہ کے CCTV پر دیکھنے کو نہیں ملا، البتہ کچھ چینلز احتیاطی تدابیر، صحت کے محکمہ کے کارندوں اور ڈاکٹروں کے ذریعے بتاتے دیکھے گئے۔ بڑی خاموشی کےساتھ دن رات وہاں صوبے میں 8 دن میں زمین سے اُبھر کر باہر آگیا جہاں ایک ہزار بیڈ کی سہولت ہوگی اور یہ تحریر کرتے وقت وہاں مریضوں کی آمد شروع ہو چکی ہوگی۔ یہ ہسپتال 7 ہزار لوگوں کی دن رات محنت کا نتیجہ ہے اور اب اس کا انتظام آرمی اور سویلین مل کر کر رہے ہیں۔ پہلے بتاتے چلیں کہ یہ کورونا وائرس مختلف قسم کے جانور کھانے سے پیدا ہوا ہے جس میں چمگادڑ پیش پیش ہے اور عرصے سے وہاں کے باشندے اس کے سُوپ اور گوشت سے مزے لیتے رہے ہیں، آپ اگر جانان چاہتے ہیں تو بتاتے چلیں چینی جو محنت کش قوم ہے، کچھوے، سانپ، کیڑے مکوڑے اور تو اور کتوں کا گوشت بھی استعمال کرتی رہتی رہی ہے۔
اور اس کرونا وائرس سے پہلے بھی یہ قوم 2002ءمیں سارس SARS کی وباءسے دوچار ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں 8 سو افراد جاںبحق ہوئے تھے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں قدرت کا امتحان ہے اور اس سے پہلے، طاعون اور تپ دق نے بھی گاﺅں اور شہروں کو اُجاڑا ہے۔ یہ 1921ءسے پہلے کی بات ہے بالآخر ڈاکٹروں اور سائنسدانوں نے ٹی بی کا ٹیکہ یا انجکشن متعارف کرایا تھا۔ 1950ءسے 1965ءتک ٹی بی تیسری دنیا کے لوگوں میں مہلک پائی جاتی تھی جس کے مریض کو گھر کے دوسرے افراد سے دور رکھا جاتا تھا، یا پھر انگریز کے زمانے میں صحت افزاءمقام پر سینی ٹوریم بنا دیئے گئے تھے جہاں مریض کو رکھا جاتا تھا، بالآخر اس پر قابو پا لیا گیا۔ اس سے پہلے پلیگ کی وباءعام ہوئی تھی جو چوہوں اور مکھیوں سے پھیلتی تھی اور آناً فاناً میں گاﺅں کے گاﺅں اُجڑ جاتے تھے۔ سائنسدانوں اور ڈاکٹروں نے اس مہلک بیماری پر بھی قابو پا لیا اور اب دنیا میں یہ وباءنہ ہونے کے برابر ہے۔
وبائیں آتی ہیں اور انسان اُن پر قابو پا لیتا ہے اس کے قابو کرنے میں دیر لگتی ہے لیکن چین جس تیزی سے اس پر کام کر رہا ہے وہ دنیا کو حیران کرنے کے مترادف ہے کہ اس وباءکے پھیلنے سے پہلے ہی حکومت نے بجلی کی تیزی کےساتھ بھاگ دوڑ شروع کی سب سے پہلے انہوں نے ایک بند پڑی آفس بلڈنگ کو صرف چند دنوں میں 500 ورکرز کی مدد سے ایک ہزار بیڈ کے ہسپتال میں تبدیل کیا ہے اور دوسرے ہسپتالوں سے کورونا وائرس کے مریضوں کو اس میں منتقل کر دیا گیا ہے یہ ہسپتال HUANGGANG ہوآں گانگ میں سطح سمندر سے اونچائی پر ہے اس کے ساتھ ہی چین کی حکومت نے ووہان میں ایک ہزار بیڈ کا ہسپتال چھ ایکڑ زمین پر دو ہفتوں میں تعمیر کر لیا ہے اور آج سے وہاں مریضوں کا داخلہ شروع ہو چکا ہے۔ اور تیسرا ہسپتال بھی ووہان کے علاقہ میں جو 16 سو بیڈپر مشتل ہوگا اور جو تھنڈر گاڈ پہاڑ پر بنایا گیا ہے جو 4 فروری سے مریضوں کیلئے تیار ہو چکا ہے ،اس ہسپتال کے عملے کی تعداد دو ہزار کے قریب ہے، اس کے علاوہ چوتھے ہسپتال کیلئے بھی زمین ہموار کی جا رہی ہے۔ 143 کروڑ آبادی کے ملک میں کرونا وائرس کے شکار کی تعداد اب تک 400 سے کچھ کم ہے اور حکومت بڑے اطمینان سے اپنے پورے ہوش و حواس میں تندہی سے عوام کو اس سے بچانے کیلئے چوبیس گھنٹے محنت کر رہی ہے آپ سوچیں گے پھر یہ اتنے ہسپتال بنائے جا رہے ہیں۔ اس کا یہی جواب ہے کہ یہ لادینی قوم خود پر زیادہ بھروسہ کرتی ہے اور حکومت کا ہر کارندہ عوام کی خدمت کیلئے وقف ہے۔ اگر کسی نے کوئی لاپرواہی کی اور بے ایمانی کے مرض میں مبتلا ہو گیا تو فوری طور پر اُسے گولی مار کر دوسروں کیلئے عبرت کی مثال بنا دیا جاتا ہے اور انہیں کام کرتے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ سب کے سب فوجی ہیں۔ ایئرپورٹ سے لے کر میکڈونلڈ میں کام کرنے والے چُست اور چابند تیزی سے کام کرتے نظر آئینگے۔
یورپ میں تیز رفتار ٹرین، جاپان میں بلٹ ٹرین کو پیچھے چھوڑ کر 270 میل (430 کلو میٹر) سے زیادہ تیز رفتار میگ لیو ٹرین جو پہیوں کے بغیر ہے چلا کر حیران کر دیا کہ یورپ جرمنی، اور جاپان حوصلہ کھو بیٹھے کہ اس سے زیادہ تیز رفتار ٹرین وہ نہیں چلا سکتے۔ امریکہ ٹرین کے معاملے میں ہندوستان سے بھی پیچھے ہے یعنی کسی گنتی میں نہیں آتا کہ شنگھائی ایئرپورٹ (پڈونگ) سے شہر کی میٹرو ٹرین سے ملانے و الی میگ لیوکا کرایہ صرف چھ ڈالر ہے اور ہر پندرہ منٹ بعد چلتی ہے۔ صرف سات آٹھ منٹ میں پہنچاتی ہے۔ یہ بھی بتاتے چلیں کہ یہ قوم 1949ءسے پہلے بادشاہت میں تھی، چرس، گانجا پینا عام تھا کہ کمیونسٹ پارٹی لیڈر ماﺅزے تنگ نے انقلاب برپا کر دیا اور 1949ءمیں کمیونسٹ گورنمنٹ کے تحت آزاد ہو گئی جبکہ ہم ان سے پہلے 1947ءمیں آزاد ہوئے تھے ۔اللہ اور رسول کی امت تھے اور اب بھی کہلاتے ہیں خود کو انگریزوں کے بعد اپنے رویوں اور بدعنوانیوں کے غلام ہیں۔ حکومتیں آتی رہتی ہیں اور مارشل لاءبھی لگے ہیں نہ ہی وہاں کوئی وباءپھیلی ہے اور جو ہسپتال میں وہ بدعنوانی کا شکار ہو کر اُجڑ رہے ہیں سندھ میں تو یہ عالم ہے جہاں آوارہ کتوں کے کاٹنے سے روزانہ 10 سے بیس افراد ہر شہر میں شکار بنتے ہیں اور سندھ حکومت کے پاس انجکشن نہیں ہیں ،غور کریں کہ اگر کرونا جیسی وباءپھیل جائے تو کیا ہم یعنی حکومت قابو پا سکے گی۔ سنا تھا سی پیک خوشحالی کا دروازہ کھولے گا لیکن وہاں بھی لوگ زمینیں بیچنے میں لگے ہیں۔ امریکہ کہتا ہے کہ کورونا وائرس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں اور چائنہ خاموشی سے کام کر رہا ہے۔ بک بک نہیں کر رہا ایسی قوم اور حکومت کو سلام جو عوام کیلئے ہے اور ہماری حکومت؟