کراچی:
پاکستان کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر گزشتہ 7 ماہ سے مسلسل بلندی کی جانب گامزن ہیں اور جنوری میں یہ 2 سال کی بلندترین سطح 12.27 ارب ڈالر پر پہنچ گئے ہیں۔ اس کے برعکس کمرشل بینکوں کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر گذشتہ 6 ماہ سے مسلسل زوال کا شکار ہیں اور ان میں مستقل کمی واقع ہورہی ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق 17 اگست 2019 کو بینکوں کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر 7.36 ارب ڈالر تھے۔ 31 جنوری 2020 کو ان ذخائر کا حجم 6.37 ارب ڈالر تھا۔ اس طرح ذخائر کی مالیت میں تقریباً ایک ارب ڈالر یا 13.5 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ غیرملکی زرمبادلہ کا یہ حجم 14 ماہ کی کم ترین سطح پر تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کمرشل بینکوں کے زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل گراوٹ کی وجہ گذشتہ برس جون سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 6 فیصد کمی اور بینکوں میں رکھے گئے فارن کرنسی ڈپازٹس پر برائے نام کے مقابلے میں روپے پر منحصر ڈپازٹس پر ریٹرن کی بلند تر شرح ہے۔
اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ماضی قریب میں کمرشل بینکوں کو 2 ارب ڈالر کا قرضہ دیے جانے کے بعد انھیں ( کمرشل بینکوں کو) درآمدات پر 100 فیصد پیشگی ادائیگی کی اجازت دینے، ٹیکس ریٹرن کے نان فائلرز کو ایک سال قبل فارن کرنسی اکاؤنٹ کھولنے سے روکنے کا فیصلہ بھی وجہ بنا۔
علاوہ ازیں نان فائلرز نے ان افواہوں کے بعد کہ زرمبادلہ کو ترستی حکومت درآمدی ادائیگیوں اور قرضوں کی واپسی کے لیے ان کے فارن کرنسی ڈپازٹس اپنے قبضے میں لے سکتی ہے، اپنی جمع شدہ غیرملکی کرنسیاں نکلوالیں۔ ان کے علاوہ بھی کمرشل بینکوں کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے کئی اسباب تھے۔
ایک معروف بینک کے اہلکار کے مطابق اسٹیٹ بینک نے حالیہ مہینوں کے دوران کمرشل بینکوں کو 2 ارب ڈالر واپس کیے، مگر اس سے قبل مرکزی بینک نے کمرشل بینکوں سے ان کے تقریباً تمام زرمبادلہ کے ذخائر ادھار لے لیے تھے۔
ٹارس سیکیورٹیز کے ڈپٹی ہیڈ آف ریسرچ مصطفیٰ مستنصر نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کمرشل بینک اپنے پاس موجود غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر سے درآمدات پر پیشگی ادائیگیاں کرتے ہیں۔ مرکزی بینک نے کمرشل بینکوں کو مرحلہ وار 100 فیصد تک پیشگی ادائیگیاں کرنے کی اجازت دی تھی۔ جس کے بعد بینک مشنیری، پلانٹ اور خام مال کی درآمد پر نومبر میں 10 ہزار ڈالر، دسمبر میں 50فیصد اور اب 100 فیصد تک پیشگی ادائیگی کرسکتے ہیں۔
جے ایس گلوبل کے ہیڈ آف ریسرچ حسین حیدر کا کہنا تھا کہ دسمبر 2017 سے جون 2019 کے درمیان جب روپیہ اور ڈالر کے درمیان مساوات مبادلہ انتہائی طیران پذیر تھی اور روپیہ 55فیصد قدر کھوچکا تھا، مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل کم ہورہے تھے جب کہ کمرشل بینکوں کے ذخائر وسیع ہورہے تھے۔ اب صورتحال برعکس ہے۔